Latest Press Releases


عزت و ذلت کا معیار وہ ہے جو اللہ کریم نے قرآن کریم میں ارشاد فرمادیا


عزت وذلت کا معیار اللہ کریم نے قرآن کریم میں ارشاد فرما دیا ہے کہ عزت اللہ کے لیے اللہ کے رسول ﷺ کے لیے اور ان مومنین کے لیے ہے جو اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے قواعد و ضوابط کے مطابق زندگی گزارتے ہیں۔اس سے باہر اگر کوئی عزت تلاش کرے گاتو اُسے ذلت ملے گی۔اس ارشاد سے یہ بات واضح ہے کہ ہمیں چاہیے کہ اپنے آپ کو انفرادی سطح سے لے کر حکومتی سطح اُن اصولوں پر لے آئیں جو آپ ﷺ نے ارشاد فرمائے ہیں۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان نے جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا 
  انہوں نے کہا کہ قلب سے قلب تک جو کیفیت پہنچتی ہے اسے کسی زبان کی ضرورت نہیں ہوتی۔قلب بنیاد ہے صراط مستقیم پر چلنے کے لیے قو ت بھی قلب سے نصیب ہوتی ہے اسی لیے صوفیاء کرام ساری محنت قلب پر کرتے ہیں۔دنیا کی زندگی پر آخرت کا انحصار ہے اخروی زندگی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہے دنیا کی زندگی محدود ہے اپنی خواہشات نفس کی پیروی کرتے ہوئے جب اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے احکامات کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے تو اس کے بدلے چند لمحات کی لذت تو لے لی لذت بھی وہ جو عارضی لمحاتی اور ہمیشہ کی زندگی کا نقصان کر دیا تو یہ بہت گھاٹے کا سودا ہے۔اللہ کریم جسے چاہیں اپنی رحمت سے معاف فرما دیں لیکن ارشاد ہے کہ جس نے دنیا کے بدلے آخرت کو چھوڑ دیا وہ ضرور عذاب چکھے گا۔ اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔ 
  آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا فرمائی۔
Izzat o zillat ka miyaar woh hai jo Allah kareem ne quran kareem mein irshad frma dya - 1

لوگوں کا مال لوٹ کر اور نجائز طریقے سے دولت اکٹھی کر کے غریبوں میں بانٹنا اور خیرات کرنا ایسا عمل گستاخی شمار ہو گا۔


ہم مخلوق سے چھپ کر تو گناہ کر سکتے ہیں اپنے خالق سے نہیں چھپ سکتے۔صدقات اور خیرات کرنے سے پہلے دیکھیں کہ میری کمائی حلا ل ہے،جائز ہے اس میں حرام شامل تو نہیں،کیا اس میں سود تو نہیں جو اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ اعلان جنگ ہے۔لوگ حرام کا پیسہ بھی غریبوں میں بانٹ دیتے ہیں جو گستاخی شمار ہو گا۔دین اسلام سے معاشرے میں خوبصورتی آتی ہے۔انسانی حقوق و فرائض پر اسلام بہت زور دیتا ہے۔انسانی حقوق کی مسلم و غیر مسلم میں کوئی تفریق نہیں ہے۔زندہ رہنے کا ہر ایک کا حق ہے اور عقیدہ (مذہب) اختیار کرنے پر بھی ہر ایک کو اختیار ہے۔اس پر کوئی زبردستی نہیں کی جائے گی۔
امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب!
انہوں نے کہا کہ ہر بندہ مومن نے کلمہ طیبہ کے ساتھ اللہ کریم سے ایک عہد کیا ہے کہ میں تیرے سوا کسی کو اپنا معبود نہیں بناؤں گا اور نبی کریم ﷺ کے طریقے پر (سنت) پر چلوں گا۔اور اس عہد کی پاسداری تا دم آخر ہونی چاہیے۔اللہ کریم توفیق عطا فرمائیں کہ ہم اس وعدے کو نبھا سکیں۔ہر بات میں اپنی انا،اپنی پسند کو رکھ لینا تکبر کرنا یہ گمراہی کی طرف لے جاتا ہے۔اللہ کریم زندگی کے ہر پہلو میں ہماری راہنمائی فرماتے ہیں۔احکام الٰہی کچھ مان لینا اور کچھ کو چھوڑ دینا یہ درست نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ انسان اشرف المخلوقات ہے ہر انسان کی استعداد مختلف ہے عقل و شعور،کلام ہر پہلو سے دوسرے کے جیسی نہی۔اگر سارا معاشرہ ایک جیسا ہوتا تو کوئی دوسرے کے کام نہ آتا۔یہ فرق دنیاوی امور کی سرانجام دہی کے لیے ہے۔یہی انسانی مزاج شہادت دیتا ہے کہ اسے ایسا قانون چاہیے جس پر کاربندہوتے ہوئے ہرکوئی اپنی حدودوقیود کا خیال رکھے۔جبکہ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو اپنی زہنی استعداد استعمال کرتے ہوئے معاشرے میں فساد کا سبب بنتے ہیں۔کلام ذاتی حق و باطل کی پہچان کراتا ہے اور اس کے نتائج کے بارے میں بھی آگاہ کرتا ہے۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔
  آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا فرمائی۔
Logon ka maal lout kar aur Najaiz tareeqay se doulat ikathi kar ke ghareebon mein baantna aur khairaat karna aisa amal gustaakhi shumaar ho ga . - 1

زکوۃ کی ادائیگی،نماز کا قیام اور والدین کے ساتھ حسن سلوک یہ دین کے بنیادی احکامات ہیں


زکوۃ کی ادائیگی،نماز کا قیام اور والدین کے ساتھ حسن سلوک یہ دین کے بنیادی احکامات ہیں جن کی ادائیگی ہم پر فرض عین ہے۔ان اعمال کے اختیار کرنے سے معاشرے میں ایک خوبصورت نکھار پیداہوتا ہے۔لوگوں کے ساتھ بلا تفریق خوبصورت کلام کرنا،تبلیغ دین اور اشاعت دین کی بہترین صورت ہے اور ہماری عملی زندگی دوسروں تک دین اسلام کی دعوت پہنچانے کا بہترین طریقہ ہے۔  امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا دوروزہ ماہانہ روحانی اجتماع کے موقع پر سالکین کی بہت بڑی تعداد سے خطاب!
انہوں نے کہا کہ اسلام میں زکوۃ کا حکم ایسا خوبصورت عمل ہے کہ یہ نظام زکوۃ دولت کو ایک جگہ جمع نہیں ہونے دیتا۔بلکہ اس نظام میں دولت گردش کرتی رہتی ہے۔اس سے آپ کی دولت پاک ہوتی ہے اس میں مزید برکت آتی ہے۔دین اسلام کا ہر حکم ہر جگہ کے لیے اعلی ترین ہے۔جس پر عمل کر کے ہر کوئی استفادہ حاصل کر سکتا ہے۔اللہ کریم کے احکامات ہی دین اسلام ہے اور ہم تک پہنچنے کا سبب انبیاء کرام مبعوث فرمائے۔ دین اسلام پر عمل پیرا ہونے کا انداز،طریقہ،حدود و قیود ہر پہلو وہ ہے جس کی راہنمائی نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمائی ہے۔نبی کریم ﷺ کی حیات مبارکہ سے ہر طرح کی ہر پہلو کی راہنمائی ملتی ہے۔زندگی کے عمومی حصوں سے لے کر خصوصی حصوں تک ہر طرح کی راہنمائی میسر ہے۔
  انہوں نے مزید کہا کہ اللہ کریم کا احسان کہ ہمیں کیفیات قلبی عطا فرمائیں۔ہمارے پاس ہر طرح کی تحریر اور تقریر موجود ہے جس سے سالکین ہر طرح سے استفادہ حاصل کر سکتے ہیں۔ ہمارا یہ مل بیٹھنا اللہ کی رضا کے لیے ہے اس کی خوشنودی کے لیے ہے۔اتباع محمد الرسول اللہ ﷺ کے لیے ہے۔اجتماع پر آنا،مل بیٹھنا،کہنا سننا اس کو عمومی نہ جانیں اس کو خصوصی جانیں۔اور نفلی معتکف کی حیثیت سے اپنا وقت بسر کریں۔گپ شپ یا کھانے پینے کے لیے اس وقت کو جو آپ نے اجتماع کے لیے وقف کیا ہے ضائع نہ کریں۔ جس مقصد کے لیے آئے ہیں اسے حاصل کریں۔ہر گزرتا لمحہ ہماری زندگی سے کم ہو رہا ہے۔آخرت کی فکر کریں اور اس کی تیاری کریں۔
آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا فرمائی۔
Zikot ki adaigi namaz ka qiyam aur walidain ke sath husn sulooq yeh deen ke bunyadi ehkamaat hain - 1

اگر آپکا رویہ درست ہو تو دشمن بھی آپ کا احترام کرے گا


ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم جہاں دنیا کے باقی نظاموں کو آزمانے کی کوشش کر رہے ہیں وہاں کیوں نہ اس نظام کو اپنائیں جو ہمیں نبی کریم ﷺ نے عطا فرمایا۔ یہ ایسا نظام ہے جس کی گواہی 14 صدیاں دیتی ہے کہ جب جہاں بھی اسلامی نظام کو یا اس نظام کے کچھ حصے کو نافذ کیا گیا اس کے نتائج بہت مثبت آئے۔اسلام ی نظام عدل اتنا بہترین ہے کہ  پھر اس معاشرے میں کسی کو جرات نہیں کہ کوئی کسی کا حق مارے۔ نظام عدل میں مساوات یہ اسلامی نظام عدل کی بہت خوبصورت بات ہے کہ جس حیثیت کا بھی ہو گا اس کو بھی اسی طرح اپنا حساب دینا ہو گا جیسے ایک عام آدمی کو دینا پڑتا ہے۔ہر کوئی اپنے حق کے لیے تو بات کر رہا ہے لیکن جو اپنی ذ مہ داری ہے اسے ہم ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ اسلام پہلے اپنی ذمہ داری ادا کرنے کا حکم دیتا ہے بعد میں اپنے حق کا۔اپنا حق تو بندہ معاف بھی کر سکتا ہے جبکہ ذمہ داری ادا کرنی ہوتی ہے۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب!
  انہوں نے مزید کہا کہ دین اسلام معاشرے او ر اس کی تشکیل کے لیے بہترین راہنمائی عطا فرماتا ہے۔اگر آپکا رویہ درست ہو تو دشمن بھی آپ کا احترام کرے گا۔اختلافات مثبت رویے سے تبدیل ہو سکتے ہیں۔والدین کے ساتھ حسن سلوک پر دین اسلام میں بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔کہ اپنے والدین کے ساتھ انتہائی شفقت سے پیش آئیں۔ان کی فرمانبرداری لازم قرار دے دی گئی چاہے والدین کافر ہی کیوں نہ ہوں ان کے ساتھ احترام کا معاملہ رکھا جائے گا۔صرف اسلام کے خلاف کوئی بات نہیں مانی جائے گی اور وہ بھی احسن طریقے سے انکار کیا جائے گا۔اس کے علاوہ قریب والے لوگوں سے جن میں محلے داری،رشتہ داری آ جاتی ہے ان کے ساتھ بہت خوبصورت انداز سے مثبت رویہ رکھنے پر ان کے ساتھ معاملات کرنے پر ہر لحاظ سے ان کا خیال رکھنے کا کہا گیا ہے۔ایسے ہی یتیم اور مساکین کی معاونت اور مدد کا حکم ہے ان کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھنے سے اللہ کریم اتنا اجر عطا فرمائیں گے جتنے اس کا ہاتھ کے نیچے بال آ گئے۔لینا دینا کچھ نہیں اگر صرف شفقت بھرا ہاتھ اس کے سر پر رکھا جائے۔
  انہوں نے مزید کہا کہ اسلامی نظام میں ہر کسی کو اس کا حق ملتا ہے۔جس سے معاشرہ خوبصورت تشکیل پاتا ہے۔سب کی ذمہ داریاں اور سب کے حقوق ارشاد فرما دئیے گئے ہیں۔اب فقدان صرف عمل پیرا ہونے کا ہے۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں.
یاد رہے کہ دارالعرفان منارہ میں 5،6  بروز ہفتہ اتوار ماہانہ روحانی اجتماع کا انعقاد کیا گیا ہے جس میں ملک بھر سے سالکین اپنے قلوب کو منور کرنے کے لیے تشریف لاتے ہیں۔اتوار دن گیارہ بجے حضرت امیر عبدالقدیر اعوان مد ظلہ العالی خصوصی خطاب فرمائیں گے اور اجتماعی دعا بھی ہوگی۔
Agar aap ka rawayya durust ho to dushman bhi aap ka ehtram kere ga - 1

بندہ مومن دوسروں کو زیر بحث لانے کی بجائے اپنی ذات کا محاسبہ کرتا ہے


معاشرے میں ایک روش عام ہوگئی ہے کہ ہم اپنے آپ کو چھوڑ کر دوسروں کو زیر بحت لا رہے ہیں۔جس سے خاندانی طور پر ہمارے درمیان فاصلے آگئے ہیں۔حالانکہ قرآن کریم میں اپنے قرابت داروں کے ساتھ مدد  اور تعاون کرنے کا حکم ہے۔سوشل میڈیا کے استعمال سے ہم اپنے قریبی لوگوں کو چھوڑ کر میلوں دور رہنے والوں میں اپنا سکھ تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔ 
امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب!
انہوں نے کہا کہ کوئی بھی جو دعوی کرتا ہے اس کے ساتھ اس کی شہادت بھی ضروری ہوتی ہے۔بحیثیت مسلمان جب بات ایمان کی آتی ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایمان امید اور خوف کے درمیان ہے یہ وہ کیفیت ہے کہ جب اللہ کریم کی عطا کی طرف دیکھیں گے تو امید رکھیں اور جب اپنی طرف دیکھیں تو بندہ کو خوف ہو۔اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے احکامات کی نافرمانی کرنا اور کامیابی کا دعوی بھی کرنا یہ درست نہیں۔ہمارے دعوے کے ساتھ ہمارے اعمال اس دعو ے کی شہادت دیں اگر دعوی ایمان ہے تو پھر عمل صالح اس کی شہادت ہوں گے اور عمل صالح کیا ہے؟ ہر وہ عمل جو اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے حکم کے مطابق ہوگا وہ عمل صالح ہے۔
  انہوں نے مزید کہا کہ جب کوئی نا فرمانی کرتا ہے، خطا کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے اور اگر مسلسل نافرمانی کی جائے تو آہستہ آہستہ سارا قلب سیا ہ ہو جاتا ہے اگر توبہ کی جائے تو یہ سیاہی اتر جاتی ہے ورنہ قلب پر مہر ثبت کر دی جاتی ہے پھر توبہ کی توفیق بھی سلب ہو جاتی ہے اور بندہ حق سامنے ہوتے ہوئے قبول نہیں کرتا یعنی وہ اندھا ہے حق سن رہا ہوتا ہے لیکن اسے قبول نہیں کرتا یعنی بہرہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ضروریات کی تکمیل کے لیے کوئی نہ کوئی انداز انسان نے اختیار کرنا ہے یہی اعما ل جب دین اسلام کے مطابق کیے جائیں گے تواس سے خود بھی فائدہ ہوگا اور معاشرے میں بھی بہتری آئے گی اور اگر کوئی اپنی ذاتی پسند سے اپنے امور سرانجام دیتا ہے تواس سے خود بھی پریشانی اُٹھائے گا او ر معاشرے میں بھی اس کے برے اثرات ہوں گے۔انسان جیسے بھی اعمال اختیار کرتا ہے اس کے اثرات پورے معاشرے پر پڑتے ہیں۔مسلمان جب کوئی عمل کرتا ہے تو وہ اللہ کی رضا کے لیے کرتا ہے،اللہ کے لیے کرتا ہے۔
 اللہ کریم ہمیں صحیح شعور عطا فرمائیں۔ 
  آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا فرمائی
bandah momin doosron ko zair behas laane ki bajaye apni zaat ka muhasba karta hai - 1

بندہ مومن کے قلب کی قساوت کا سبب اللہ کی دی ہوئی بے شما ر نعمتوں کی ناشکری ہے


بندہ مومن کے قلب کی قساوت کا سبب اللہ کی دی ہوئی بے شما ر نعمتوں کی ناشکری ہے۔۔ کوئی بھی شخص جب دین اسلا م کو بطور ذریعہ معاش اختیار کرتا ہے اور اس کے اندر اپنے دنیاوی لالچ کو مقدم رکھ کر دین اسلام کے احکامات میں تبدیلی کرتا ہے تو اس کے لیے اللہ کریم کی طرف سے بہت بڑی وعید ہے۔بحیثیت مجموعی اگر دیکھا جائے کہ اس وقت جو جہاں جس جگہ بھی موجود ہے وہ اپنی حد تک دین اسلام کو ڈھال بنا کر اپنا ذاتی فائدہ اُٹھانے کی کوشش کر رہا ہے جو کہ ایک بہت بڑا جر م ہے ایسے اعمال کی وجہ سے مجموعی طور پر ہم پریشانیوں کے شکار ہیں۔ امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب!
انہوں نے مزید کہا کہ روح میں حیات نور ایمان سے ہے اور نیک اعمال سے اس کو تقویت ملتی ہے۔دین کو اپنی عقل و خرد سے نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ نبی کریم ﷺ جب دین سکھا رہے تھے سمجھا رہے تھے تو صحابہ کرام ؓ کی جماعت سامنے تھی انہوں نے آپ ﷺ کے روبرو اس پر عمل کیا آپ ﷺ نے تصدیق فرمائی آج ہمارے پاس وہی دین پہنچا ہے جو آپ ﷺ نے صحابہ کو بتایا۔ہم اپنی مرضی سے اس میں کمی بیشی نہیں کر سکتے۔ذاتی علم سے دین کو سمجھنا اور سمجھانا ذاتی خواہشات تک لے جاتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب کوئی گستاخی کرتا ہے نا فرمانی کرتا ہے وہ لمحہ اس وقت بندے میں ایمان نہیں ہوتا وہ لمحہ بے ایمانی کا ہوتا ہے کیونکہ ایمان کے ہوتے ہوئے کوئی بھی اللہ کریم کی نا فرمانی نہیں کر سکتا۔اگر کوئی بہت بڑی گستاخی کر رہا ہے خلاف ورزی کر رہا ہے سوچیں وہ لمحہ کیسا ہوگا اس کے اثرات اس بندہ پر کیا ہوں گے۔اللہ کریم معاف فرمائیں۔ہم اپنی ذمہ داری کو بھول بیٹھے ہیں لالچ میں اندھے ہوچکے ہیں ہم نے اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے ارشادات کو بھلا دیا ہے اللہ کریم ہمارے حال پر رحم فرمائیں۔ہر ایک کو اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ میرے صبح شام کیسے گزر رہے ہیں جو کمی بیشی ہے اسے دور کرنے کی پوری کوشش کریں۔ اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔
آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا فرمائی۔
Bandah momin ke qalb ki Qasawat ka sabab Allah ki di hui be shmar nematon ki na shukri hai - 1

کائنات کی ہر شئے کی حیات اللہ کے ذکر سے جڑی ہوئی ہے


کائنات کی ہر شئے کی حیات اللہ کے ذکر سے جڑی ہوئی ہے جب بھی کوئی ذی روح اللہ کا ذکر چھوڑ دے فنا ہو جا تی ہے۔ بندہ مومن کا قلب خاص اہمیت کا حامل ہے کہ یہاں پر کیفیات محمد الرسول اللہ ﷺ کا نزول ہوتا ہے۔جب بندہ ان کیفیات کا حامل ہو تو ا س کی زبان سے نکلا ہوا لفظ اور دل کی گہرائی سے اُٹھنے والے جذبات ایک جیسے ہوتے ہیں۔اپنے دل کوخالص اتباع رسالت ﷺ اور خشوع و خضوع میں ڈھالنے کے لیے کیفیات قلبی کا حصول انتہائی ضروری ہے اس کے بغیر بندے کے قول و فعل آپس میں مطابقت نہیں رکھتے نہ رکھ سکتے ہیں اس لیے قلوب کی سختی کو ختم کرنے کے لیے اللہ اللہ کی ضربیں لگائی جاتی ہیں یہ کام شعبہ تصوف اور کیفیات محمد الرسول اللہ ﷺ کے حاملین کرتے ہیں۔ہمارے قلوب کی حیات ذکر قلبی سے ہی ممکن ہے۔
امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب!
انہوں نے مزید کہا کہ جو حقو ق اللہ پورے نہیں کرتا وہ حقوق العباد بھی ادا نہیں کر سکتا۔ کیونکہ حقو ق العباد بھی تو اللہ کریم نے ہی متعین فرمائے ہیں تو دیکھا جائے تو وہ بھی حقو ق اللہ میں ہی شمار ہوتے ہیں۔جسے روز قیامت اللہ کے حضور پیش ہونے کا خوف ہو گا اُسے دیکھنے سے زیادہ یقین نصیب ہوتا ہے کہ یقینا میں نے ایک دن اللہ کے حضور پیش ہونا ہے اور مجھے ہر عمل کا وہاں حساب دینا ہے۔بندے کا یہ عمل بھی اس کی بخشش کا سبب بنے گا۔کہ اس کے اندر خشیت الٰہی موجود ہے کیونکہ اللہ کریم نہاں خانہ دل سے اُٹھنے والے خیال،ارادے اور نیت سے آگاہ ہیں۔نور ایمان کا نصیب ہونا اللہ کریم کی بہت بڑی عطا ہے لیکن اس کا صرف اظہار کافی نہیں ہے۔نیت سے لے کر ظاہر تک زندگی اُس کے حکم کے مطابق ڈھل جائے یہ مقصود ہے۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔
آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا بھی فرمائی۔
kaayenaat ki har shye ki hayaat Allah ke zikar se juri hui hai - 1

حضرت ابو بکر صدیق ؓ کرہ ارض پر وہ واحد ہستی ہیں جنہیں خلیفۃ الرسول کا لقب نصیب ہوا۔


حضرت ابو بکر صدیق ؓ کرہ ارض پر وہ واحد ہستی ہیں جنہیں خلیفۃ الرسول کا لقب نصیب ہوا۔اور آپ کی چار پشتوں کو معیت رسالت ﷺ نصیب ہوئی۔سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کا یہ امتیاز ہے کہ یہ سلسلہ بوساطت حضرت ابو بکر صدیق ؓ آپ ﷺ سے برکات حاصل کرتا ہے۔اپنے اس وقت کو قیمتی جانتے ہوئے تزکیہ نفس اختیار کریں اور فی زمانہ برکات نبوت ﷺ کے حصول کے لیے ایسی محافل میں جانے کو غنیمت جانیں۔
امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا دو روزہ ماہانہ روحانی اجتماع سے خطاب!
انہوں نے کہا کہ اس وقت معاشرے میں جتنی بے راہ روی ہے اور ہمارے اوپر جومشکلات آ رہی ہیں اس کی وجہ ہمارے اعمال ہیں۔ہم دنیاوی تعلیم کو اولین ترجیح دیتے ہیں اور دینی تعلیم سے اپنے بچوں کو بہرہ مند نہیں کرتے ۔اسی کے نتائج آج ہم بھگت رہے ہیں۔دنیاوی تعلیم کا حصول منع نہیں ہے لیکن اولین درجہ دینی تعلیم کا ہے۔معاشرے میں دوسری خرابی جو کہ عام ہو چکی ہے وہ یہ ہے کہ ہم والدین کا عزت و احترام نہیں کرتے۔حالانکہ قرآن کریم میں براہ راست والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم موجود ہے۔ایسا نہ کرنے سے ہمارے ہر کام سے برکت اُٹھ جاتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس سردی کے موسم میں اللہ کے نام پر ہمارا مل بیٹھنا اور اس کا احسان کے تربیت کے اسباب بھی پیدا فرما دئیے۔ہم بھی اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کریں وہ اپنی شان کے مطابق نواتے ہیں۔اللہ کریم سب کا آنا قبول فرمائیں اس کا احسا ن کہ کیفیات قلبی سے ہمیں نوازا۔اللہ کریم استقامت عطا فرمائیں۔آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا بھی فرمائی۔
Hazrat abbu baker Seddiq RA kurrah arz par woh wahid hasti hain jinhein khalifa-tul-Rasool SAW ka laqab naseeb howa . - 1

دینی اور دنیاوی علوم مل کر مکمل علم بنتا ہے جسے نبی کریم ﷺ نے العلم فرمایا ہے۔


جب بھی کوئی معاملہ پیش آ جائے اس معاملے کو آپ ﷺ کے حضور پیش کر دیا جا ئے یعنی اس معاملے میں آپ ﷺ کا کیا حکم ہے،حدود کیا ہیں۔پھر وہ معاملہ عین اللہ کریم کے حکم کے مطابق ہو جائے گا۔جب ہم کسی معاملے کی تشریحات اپنی مرضی سے کرتے ہیں تو ہمارا مقصد اس مسئلے سے نہیں ہوتا بلکہ اپنی ذات اور پسند کے گرد گھوم رہا ہوتا ہے کہ میں کیا چاہتا ہوں۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پا کستان کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب!
  انہوں نے کہا کہ علوم دو طرح کے ہیں ایک فطری علم ہے جو ہر ذی روح کو اللہ کریم عطا فرماتے ہیں جیسے مچھلی کا بچہ پیدا ہوتے ہی پانی میں تیرنا شروع کر دیتا ہے یہ علم ہر جاندار کو اللہ کریم عطا فرماتے ہیں دوسرا علم ہے کسبی جسے اختیاری طورپر حاصل کیا جاتا ہے آگے اس کی دو قسمیں ہیں ایک  علم الادیان اور دوسرا علم الابدان  ایک دینی علم اور دوسرا دنیاوی علم۔  یہ دونوں علوم حاصل کیے جائیں تو مکمل علم ہو گا جسے العلم کہا گیا اگر کسی نے صرف دینی علم حاصل کیا تو اس نے آدھا علم حاصل کیا اگر کسی نے صرف دنیاوی علم حاصل کیا اس نے بھی آدھا علم حاصل کیا اس لیے مکمل علم حاصل کرنے کے لیے دونوں علوم حاصل کرنے کی ضروری ہیں۔
  انہوں نے مزید کہا کہ علم وہ جس کے اثرات مثبت ہوں وہ علم تعمیر کی طرف لے کر جاتا ہے۔دنیاوی علوم کا ماحاصل بھی تب ہو تا ہے جب دینی علوم بھی حاصل کیے جائیں۔آج بھی سائنس نے جتنی بھی ترقی کر لی ہے زیادہ سے زیادہ قرآن کریم کے احکامات کی تصدیق ہی ہو رہی ہے۔حالانکہ قرآن کریم کے کسی حکم کو کسی کی تصدیق  کی ضرورت نہیں ہے۔اللہ کریم ہمیں صحیح شعور عطا فرمائیں اور اپنے بچوں کو دنیاوی علوم ضرور سکھائیں لیکن دینی علوم بھی سکھائیں جن سے اسے اپنی پہچان ملتی ہے مقصد حیات ملتا ہے۔نبی کریم ﷺ سے اُمتی کا رشتہ اللہ کریم سے مخلوق کا رشتہ  عقائد،عبادات سے لے کر معاملات تک راہنمائی ملتی ہے۔
آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا فرمائی۔
Deeni aur dunyawi aloom mil kar mukammal ilm bantaa hai jisay Nabi Kareem SAW ne al-ilm farmaya hai . - 1

سینوں میں فرعونیت کا در آنا اور دولت کی حرص معاشرے میں فساد کا سبب ہے


معاشرے میں ہر بندے کا عمل اپنے اثرات مرتب کرتا ہے۔انسانی کردار معاشرے میں ایک حدت پیدا کرتا ہے جب یہ بڑھتی ہے تو شدت میں اضافہ ہوتا ہے اور شدت بڑھنے سے فساد برپا ہوتا ہے۔اللہ کریم کی طرف سے آنے والی تنگی اور امتحان بھی ہمیں واپس اصل راہ پر لانے کے لیے ہوتے ہیں۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوا ن پاکستان کا دو روزہ ماہانہ روحانی اجتماع کے موقع پر خطاب!
 انہوں نے کہا کہ اس وقت بحیثیت مجموعی معاشرے کی روش درست نہ ہے اور ہماری زندگی میں جو پریشانیاں او ر تکالیف ہیں یہ اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ ہمارا رخ کس طرف ہے اور ہمارے اعمال کیسے ہیں۔ہماری نیت،ہمارا کلام او ر ہمارے فعل کو اگر قرآن و سنت کے پیمانے پر رکھا جائے تو پتہ چلے کہ کتنا درست ہے۔روز آخرت ہمارا کیا گیا ہر عمل ہمارے سامنے ہوگا۔اس وقت کی رسوائی سے بہتر ہے کہ آج ہم اپنے گناہوں کو سامنے رکھتے ہوئے معافی کے طلب گار ہوں۔
  انہوں نے مزید کہا کہ چھوٹی چھوٹی باتیں جن پر ہم دھیان نہیں دیتے وہ لالچ جن کی وجہ سے ہم دوسروں پر اپنی امیدیں قائم کر لیتے ہیں یہ بھی شرک کی ایک تار بن جاتی ہے۔ہمیں اپنی امیدوں کا مرکز اللہ کریم کی ذات کو رکھنا چاہیے تو نتائج بھی پھر ویسے آئیں گے تو اگر راستہ ہمارا کوئی اور ہے اور منزل کوئی اور چاہتے ہیں تو ایسا نہیں ہوتا جیسی راہ کا انتخاب کیا جاتا ہے ویسی ہی منزل بھی سامنے آتی ہے۔
  اس کے علاوہ آج انگلینڈ کے ساتھیوں سے بھی حضرت جی مد ظلہ العالی نے ذوم ایپلیکیشن کے زریعے خطاب فرمایا اور انہوں نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنے کردار کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ ہمارے کردار سے معاشرے میں بہتری آئے لوگوں کے لیے بھلائی ہو جس معاشرے میں ہم رہتے ہوں وہاں کے لوگوں کے لیے ہمارا کردار تبلیغ کا کام کرے تا کہ دین اسلام اصل چہرے کے ساتھ غیر مسلم کے سامنے آئے۔جب ہم ذکر الٰہی کو اپنے معمولات میں شامل رکھیں گے تو اس سے عام آدمی سے زیادہ اسطاعت نصیب ہوتی ہے بندہ عام آدمی سے زیادہ محنت کرتا ہے،حلال حرام کی تمیز کرتا ہے سچ اور جھوٹ کا دھیان رکھتا ہے غرض کہ اس کی زندگی خوبصورت ہوتی چلی جاتی ہے اور نبی کریم ﷺ کے اتباع میں ڈھل جاتی ہے۔
 آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور امت مسلمہ کے اتحاد کی خصوصی دعا بھی فرمائی۔
Seenon mein fraonit ka dar aana aur doulat ki hiras muashray mein fasaad ka sabab hai - 1