Featured Events


حق میں عطا ہے

Watch Haq main Ata hai YouTube Video

جہیز کا فلسفہ

یہ جملہ درست نہیں ہے کہ جہیز ایک لعنت ہے اور یہ بھی صحیح نہیں ہے کہ اپنی حیثیت سے بڑھ چڑھ کر ادھار لے کر جہیز دیں۔ ہم دونوں طرف  افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ایک طبقہ کہتا ہے کہ جہیز ایک لعنت ہے،ایک طبقہ جہیز میں اپنی شان و شوکت ظاہر کرنے کے لئے قرض لیتا ہے   حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں اعتدال ہے، توازن ہے۔ کائنات کاسارا نظام، یہ زندگی موت،یہ گرمی سردی، یہ رات دن،ہر چیز میں ایک اعتدال ہے،ایک توازن ہے۔یہ سارے ستارے سیارے،زندگی توازن سے قائم رہتی ہے۔عدم توازن،زندگی کو ڈسٹرب Disturbکرنے کی طرف لے جاتا ہے۔جہیز میں بھی توازن ہے۔ 
نبی کریم ﷺنے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ ؓ  کو جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ کریم کے نکاح میں دیا تو ضروریاتِ زندگی کی بنیادی چیزیں آپ ﷺنے انہیں عطا فرمائیں۔پانی کے لئے ایک مشکیزہ عطافرمایا،اس عہد میں مشکیزے ہوتے تھے۔جہیز میں آٹابنانے کے لیے ایک چکی عطا فرمائی۔اسی طرح ایک بستر،ایک تکیہ،گدایااس طرح کی کچھ چیزیں عطا فرمائیں۔جومادّی چیزیں اس وقت خانہ نبوی ﷺ پر موجود تھیں۔یہ نہیں کہا کہ میں توپوری انسانیت کا نبیﷺ ہوں،اللہ نے مجھے سب سے افضل بنایاہے تو پھر میرا جہیز بھی بے مثل وبے مثال ہو،بولا نہیں۔جو مادّی چیزیں آپﷺ آسانی سے اپنی بیٹی کو دے سکتے تھے،و ہ ضرور دیں۔بعد میں انہیں رہنے کے لیے اپنے حجرات مبارکہ میں سے ایک حجرہ مبارک بھی عطا کردیا۔جہاں روزہ اطہرﷺ ہے، اس کے پیچھے وہ حجرہ مبارکہ ہے جس میں حضرت علی ؓاور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ رہتے تھے۔یہ حجرات نبیﷺ میں سے تھا۔آپ نے شادی کے بعد عطا فرمایا، یعنی جہیز پر بات ختم نہیں ہو جاتی۔ اگر بعد میں بھی اولاد کی مددکر سکتے ہیں تو بچیوں کا حق بنتا ہے۔جس طرح ہم بیٹوں کا دھیان رکھتے ہیں اور زندگی بھر مدد کرتے ہیں لہٰذا بیٹیوں کا بھی وہی حق ہے۔ حضور ﷺنے شادی کے بعد حجرہ مبارک بھی عطا کردیا تو ایک معیار بن گیا کہ جو چیز یں اپنی حیثیت کے مطابق ضروریات زندگی کی ہیں وہ اپنی بیٹیوں کو دے سکتے ہیں۔اگرآپ زیور اچھا دے سکتے ہیں اور آپ کسی سے ادھار لینے پر مجبور نہیں ہیں تو ضرور دیں،وہ ایک سرمایہ ہے یعنی زیور صرف زینت ہی نہیں ہوتی،یہ ایک Balanceہے کہ اس کے پاس کچھ پیسے ہوں،ضروریات زندگی کی چیزیں، لباس کی قسم سے،ضرورت کے برتنوں کی قسم سے،آپ دیتے ہیں تو ضرور دیں لیکن یہ شان وشوکت کے اظہار کے لئے نہ ہوجس کی جتنی حیثیت ہے اس کے مطابق اسے دے اوریہی نہیں ہے کہ جہیز دے کر فارغ کردیا پھر ان کی وراثت میں بھی کوئی حصہ نہیں رہا، نہیں یہ نہیں ہوتا۔ہم نے ایسے زمیندار قسم کے لوگ بھی دیکھے ہیں جواپنی بیٹیوں کو جائیداد سے حصہ نہیں دیتے کیونکہ ان کی بیٹی اپنے حصے کا مال جہیزکی صورت میں لے جا چکی ہے۔بھائی! جہیز آپ نے جائیداد کا حصہ تقسیم کر کے تو نہیں دیاتھا۔وہ تو آپ نے اپنی شان وشوکت کے لیے،اپنا نام بنانے کے لئے، بہت بڑا جہیز دیا تھا۔ والدکی وفات پر جائیداد میں مقرر شدہ حصہ یعنی بچے کی نسبت آدھا اسے ملے گا، جائیداد میں بھی ان کا حق ہے،وہ انہیں دی جانی چاہئے۔مکان ہے،زمین ہے،کوئی غیر منقولہ جائیداد جو کچھ بھی ہے اس میں بھی ان کا حصہ برقرار رہتا ہے۔ ہم افراط وتفریط کا شکار ہو گئے ہیں کچھ لوگ تو بلکل اس کے خلاف چلے جاتے ہیں کہ کچھ دینا ہی نہیں چاہئے اور کچھ لوگ اسے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں کہ میری بڑی شان وشوکت ہو گی۔ یہ دونوں طریقے غلط ہیں۔اپنی حیثیت سے بڑھ کر دینا اور اپنے اوپر بوجھ بنانا بھی ناجائز ہے۔ کس کی شان نبی کریم ﷺ کی شان سے میل کھاتی ہے؟جب آپ ﷺنے اسے اپنی آنر Honourکا سبب نہیں بنایابلکہ ضروریات زندگی کی جو چیزیں کاشا نۂ نبویﷺ پر موجود تھیں،وہ عطا کر دیں۔ اس میں توازن چاہئے۔ ہر بندے کی ایک مالی حیثیت ہے ہر بندے کی ایک قوت ہے، دینے یا نہ دینے کی۔ اس کے مطابق دے۔
اس سلسلے میں شادی کرنے والے یعنی سسرال یا دولہا کا مطالبہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے،وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ جہیز میں گاڑ ی بھی ہو، جہیز میں وہ چیز بھی ہو۔وہ شرط نہیں لگا سکتے،جورواج آج کل ہے کہ شرط لگائی جاتی ہے۔جہیز میں گاڑی بھی آئے،ہمیں وہاں سے بھی حصہ ملے،ہمیں نقد بھی اتنا چاہئے، نہیں۔ یہ شرعاً جائز نہیں ہے۔ان کا مطالبہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔جتنے بھی حقوق ہیں وہ بیٹی کے ہیں اور والد کے ہیں۔اس کے سسرال والے، یادامادکا حق نہیں ہے کہ وہ مطالبہ لے کر بیٹھ جائیں کہ آپ اتنے امیر ہیں۔ مجھے وہ بھی دیں، مجھے وہ بھی دیں، یہ ناجائز ہے۔انہیں یہ حق پہنچتا ہے کہ بہو کودنیاوی ا عتبار سے اور دینی اعتبار سے پرکھ لیں۔ باعمل ہے باکردار ہے،شریعت کے دائرے میں رہنے والی ہے، نیک ہے۔اس کے بعد باپ کا اور بیٹی کا معاملہ ہے،اس میں ان کا کوئی لین دین نہیں۔ خاوند اگر کہہ دے کہ مجھے جہیز میں کچھ نہیں چاہئے توکوئی حرج نہیں،یہ بہت اچھی بات ہے۔
 اسی طرح بیٹی جو جہیز لے کر جاتی ہے یا جو اس کا حق مہر مقرر ہوتا ہے، اس کا ذاتی حق ہے۔جب نااتفاقی ہو جاتی ہے اورنوبت طلاق تک چلی جاتی ہے تو اس کا جو مہر ہے اورجہیز کی جو ذاتی چیزیں وہ ساتھ لائی ہے۔ اس کا حق ہے وہ لے جاسکتی ہے۔ اللہ کریم فرماتے ہیں  وَاٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِھِنَّ  نِحْلَۃً ط فَاِنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَیْْءٍ  مِّنْہُ نَفْسًا فَکُلُوْہُ ھَنِیْٓءًا مَّرِیْٓءًا (النِّسَآءِ:4)کہ اگر عورت معاف کردے،بے شک مہر بھی معاف کردے،جو جہیزلائی ہے وہ بھی معاف کردے،تو بندہ آرام سے لے سکتا ہے۔ وہ معاف نہ کرے تو طلاق دینے والے کوچاہیے کہ پہلے اس کا مہر ادا کرے۔جو چیزیں اس کی ذاتی ہیں، جو اپنے والد کی طرف سے ساتھ لائی ہے، وہ واپس کرے اور خوبصورت اوراچھے طریقے سے طلاق دے۔ایسے طریقے سے نہیں کہ آئیندہ کے لیے تعلقات میں دشمنی کی بنیاد بن جائے۔ ایک مجبوری ہے کہ ہم اکھٹے نہیں رہ سکتے۔مزاج نہیں ملتے، خیالات نہیں ملتے،کردار نہیں ملتا،سوچوں میں فرق ہے،کوئی بھی وجہ ہو، ایسی وجہ ہے کہ ہم زندگی بھر اکھٹے نہیں رہ سکتے۔ جس کا اظہارشادی کے بعد ہوا تو اس کا حل طلاق ہے۔حالانکہ اللہ کے نزدیک جائز اور حلال کامو ں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ کام طلاق ہے۔لیکن زندگی کو عذاب بنانے کے بجائے طلاق دینا مناسب ہے یا تو اتنی برداشت ہوکہ اسے برداشت کرلے تو اس کا اجر الگ ملے گا۔نہیں کر سکتا تو پھر طلاق دے دے لیکن طلاق پر دشمنی نہ بنائے، اس میں بھی خوبصورتی ہے۔ارشاد بار ی تعالیٰ ہے کہ  وَ لِلْمُطَلَّقٰتِ   مَتَاع’‘م  بِالْمَعْرُوْفِ ط حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَ (الْبَقَرَۃ:241) جوجواس کا حق ہے، وہ اسے دے کر خاوند کچھ اپنی طرف سے بھی دے کہ بھئی ہم تم جدا ہورہے ہیں، میرے پاس دس لاکھ ہیں، پانچ لاکھ تم لے جاؤ تاکہ وہ کام جو بڑا ناپسندیدہ اور خراب ہے،جس پر ناراضگی یا دشمنی کی بنیاد بنتی ہے،کم از کم دوستی نہ رہی تو دشمنی بھی نہ بنے۔احسن طریقے سے عزت کے ساتھ اور طلاق میں یہ بھی ہے کہ اسے پھر لٹکائے نہ رکھو کہ اس کی زندگی عذاب کردو۔ وہ کہتے ہیں ہم نے ڈھنگا تو ڈالا ہوا ہے، گھر میں آباد نہیں ہے لیکن اب دوسری شادی تو نہیں کرسکے گی۔ یہ جائز نہیں ہے یاتو احسن طریقے سے گھر میں رکھو یا آزاد کردوپھر وہ بیٹی کا اپنا مال ہے جو اس کے والدین نے اسے دیا تھااور جو اس کا حق مہر ہے۔ہاں وہ سارا معاف کردے تو خاوندکا ہے کھائے موج کرے۔اس میں عورتوں کے لیے بھی قائدہ یہ ہے کہ وہ فراخ دلی سے کام لے اور دلائل سے ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کریں بھئی یہ یہ ہم میں فرق ہے۔ہم اکھٹے نہیں رہ سکتے اور چونکہ ہماری سوچوں میں، ہمارے کردار میں، ہمارے قول میں، گفتار میں یگانگت نہیں ہے تو یہ ساری زندگی کا عذاب، میں تمہارے لیے درد سر، تم میرے لیے فتنہ۔تو اس مصیبت سے بچنے کے لیے کہ آؤ ہم الگ ہوجائیں۔یہ ایک راستہ ہے لیکن حسن سے، اچھے طریقے سے الگ ہوں کہ آگے وہ دشمنی میں تبدیل نہ ہو۔ایسے میں دونوں سمجھوتہ کر کے ساتھ رہتے ہیں،اگر بیوی کی طرف سے زیادتیاں ہوتی ہیں،ناپسندیدہ حرکات ہوتی ہیں اورشوہر برداشت کرتا ہے تو اس کا بہت بڑا اجر ہے۔اس کا عنداللہ بہت بڑاثواب ہے۔
مرزا مظہر جان جانانؒ شہید دہلی کے نامور صوفیاء میں سے اور بہت پائے کے اولیاء اللہ اور بہت نازک مزاج تھے۔اس قدر نازک مزاج تھے کہ ان کے سامنے دوسرا بندہ اگر بے تحاشا کھاناکھارہا ہے تو ان کا دیکھنے سے پیٹ خراب ہوجاتا، نزاکت کی حد ہے۔ان کی اہلیہ محترمہ (اللہ اس پر بھی کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے) سخت مزاج تھی، بڑا، بھلابراکہتی تھیں اور چلاتی تھیں۔ان کا ایک افغانی مرید تھا، اسے انہوں نے گھر سے کوئی چیز لانے کا حکم دیا۔ اس نے دروازے پر دستک دے کرعرض کی اماں جی! حضرت جی فلاں چیز مانگ رہے ہیں تو وہ بھڑک اٹھیں، انہوں نے حضرت کو بھی اور مانگنے والے کو بھی صلواتیں سنائیں۔ وہ بھی ولائتی پھٹان تھا،اس نے کہا میں حضرت سے پوچھ کرآتا ہوں میں تمہیں گولی مارد دں گا۔ جب اس نے ساری بات عرض کی توآپ نے فرمایاتم آج تھوڑی دیر کے لیے گئے ہو تو اتنے گرم ہو رہے ہو، میں اپنی اس نازک مزاجی کے باوجود اسے عمر بھرسے برداشت کر رہا ہوں۔ کسی نے عرض کی حضرت آپ کی تو نازک مزاجی؟ فرمایا یہ میری ترقی درجات کا سبب ہے،میرے منازل میں ترقی ہوتی ہے، کیفیات میں ترقی ہوتی ہے میں جب برداشت کرتا ہوں۔
 بندہ اگر برداشت کرتا ہے تو بہت بڑے درجات عطا ہوتے ہیں۔آج اسی چیز کی ہماری ضرورت ہے،آج ہم میں قوت برداشت ہی نہیں رہی۔ میں حیران ہوتا ہوں،جی حادثہ ہوگیا بس نے رکشے کو ٹکر مار دی۔اب جو بڑا ہے جرم اس کے ذمے ہے۔یہاں تک کہیں گے ریلوے نے ٹرک کو ٹکر مار دی، اب ریلوے تو پٹری سے اُترتی نہیں۔یہ کوئی نہیں کہے گا کہ اس نے کار پٹری پر کیوں چڑھائی؟ کہیں گے ریل نے کار کو ٹکر ماردی،ریل کا اس میں کس کا کیا قصور؟ قصور تو اس کار کا ہے جو پٹری پر جاکر کھڑی ہو گئی۔کل کی خبر تھی کہ رکشے کو ٹکر لگی، دو بچے مر گئے، لوگوں نے بس جلا دی۔اللہ کا خوف کرو،بس جلانے سے کیاوہ بچے زندہ ہو گئے؟ یاکیا رکشہ ٹھیک ہوگیا؟ وہ قوتِ برداشت  Patience  ہی نہیں رہی۔بس پتہ نہیں کس کی تھی؟ چند سو کا ملازم، بس کا ڈرا ئیورچلا رہا ہے۔ جس کی بس ہے، اس نے ماں کے، بیوی کے زیور بیچ کر بس کی ابھی آدھی قسطیں اس نے دینی ہونگی۔ یہ کون سا طریقہ ہے؟ چلان تو ڈرائیور کا ہوتا ہے، بس کا تو کوئی قصورنہیں۔غلطی تو ڈرائیور کی ہے ہم میں قوتِ برداشت ہی نہیں رہی۔

توبہ کیا ہے

توبہ سے متعلق قرآن کریم نے   تَوْبَۃً نَّصُوْحًا (التَّحْرِیْم: ۸) کی  اصطلاح ارشاد فرمائی ہے یعنی توبہ آپ کے اس عمل کو کہتے ہیں کہ اگر خلاف شریعت  (انسان کے مزاج کے مطابق اچھائی، برائی نہیں ہے، بلکہ اچھائی،برائی کا معیار قرآن کریم اور سنت نبی ﷺ ہے) کوئی عمل کر رہے ہیں یا آپ کا عقیدہ اور نظریہ اس سے مختلف ہے،تو توبہ ہوتی ہے کہ اس عمل سے بعض آ جائے اور ایسا بعض آئے کہ آئندہ کے لیے نصیحت ہوجائے یعنی یہ نہیں کہ جوکام میں کرچکا ہوں اس سے توبہ اور رجوع کرتا ہوں بلکہ شرط یہ ہے کہ  تَوْبَۃً نَّصُوْحًا   وہ آئندہ زندگی کے لئے نصیحت بن جائے۔
بطفیل نبی کریم ﷺ یہ اللہ کریم نے ایک بہت بڑا معافی کا خانہ رکھا ہے۔ پہلی امتوں میں توبہ تھی۔حضرت موسٰی علیہ السلام جب کوہ طور پر تشریف لے گئے تو آپ کی امت نے فرعونیوں کا زیورپگھلاکر ایک بچھڑا سا بنا لیااور اس بچھڑے کو پوجنے لگ گئے۔کچھ لوگ ان کے خلاف رہے۔حضرت موسٰی علیہ السلام کی واپسی پرآپ نے تنبیہ کی، سخت ناراض ہوئے۔انہیں احساس ہوا کہ ہم نے غلط کیا ہے۔ ہم توبہ کرتے ہیں۔ارشا د باری ہوا کہ   فَتُوْبُوْٓا اِلٰی بَارِءِکُمْ  فَاقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ   (الْبَقَرَۃ: ۵۴) اس کی توبہ قبول ہوگی جو اپنی جان دے گا۔اگر یہ توبہ کرتے ہیں تو انہیں اللہ کی راہ میں، اللہ کے حکم سے قتل کردیا جائے اور جو جس کا قریبی عزیز ہے وہ خود قتل کرے۔ یہ نہ ہو کہ توبہ کے بعد لڑائیاں شروع ہوجائیں۔تم نے میرا باپ مارا تھا، تم نے میرا بھائی، فرمایا نہیں۔ان کے اپنے عزیز انہیں قتل کریں۔ یہ کتنی کڑی شرط تھی اور بعض حضرات نے لکھا ہے کہ ہزاروں لوگ قتل ہو گئے۔حضرت موسٰی علیہ السلام گھر سے باہر نکلے تو ان کا پاؤں انسانی خون کے کیچڑ میں دھنس گیا۔ وہ لرز گئے اور انہوں نے دعاکی بارالہاتو کریم ہے ان کو معاف فرما دے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہوا جو قتل ہوچکے ہیں انہیں شہید کا درجہ عطا کرتا ہوں جو بچ گئے ہیں انہیں میں معاف کرتا ہوں اوریوں وہ قتل عام بند ہوا۔ یہ ہم سے پہلے کی امتوں کی توبہ کا ایک پہلو، ایک جھلک،ایک نمونہ ہے۔حضور اکرم ﷺ رحمۃ العالمین کی بعثت کے بعد رب کریم نے کوئی شرط نہیں رکھی۔ مشرک ہے، کافر ہے،بت پرست ہے، بدکار ہے، شرابی ہے زانی ہے، جواکھیلتا ہے، فواحشات میں مبتلا ہے، دنیا کا کوئی گنا ہ سرزرد ہوگیا ہے۔ فرمایا  وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْْءٍ  (الْاَعْرَاف:۶۵۱) میری رحمت ہر چیز سے وسیع تر ہے۔
کسی اللہ کے بندے نے عرض کی کہ بار الہ انسان کی توبہ کیسی ہے؟ انسان کے گناہ کیسے معاف ہوتے ہیں؟ انہیں ایک مشاہدہ کرایا گیا کہ سمندر میں ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے۔ اس کے کنارے پر ایک درخت ہے جس پر ایک چڑیابیٹھی ہے، اس کی چونچ میں مٹی ہے۔ اب جتنی چونچ میں مٹی سما سکتی ہے اتنی ہی ہو گی۔اس چڑیا نے وہ مٹی سمندر میں گرا دی۔فرمایا گناہ میری رحمت کے مقابلے میں اتنے بھی نہیں جتنااس سمندر کے مقابلے میں اس چڑیا کے مونہہ میں یہ مٹی تھی۔ اس نے گرا دی تو سمندر کا کیا بگڑا؟اس کا مونہہ صاف ہو گیا تو تمہاری توبہ وہی ہے کتنا بھی تمہارے گناہ ہوں لیکن آخر انسانی استعداد کے اند رہی ہیں۔وہ کفر کرتا ہے،شرک کرتا ہے یا گناہ کرتا ہے۔انسانی استعداد کی حدیں ہیں، اس سے آگے بندہ کچھ نہیں کرسکتا،ان حدود کے اندر ہیں۔فرمایا میری رحمت تو لامحدودہے۔ تمہارے گناہ اس چڑیا کے مونہہ میں مٹی ہیں اور میری رحمت ان سمندروں سے وسیع تر ہے۔سمندر کی تو حدود ہیں میری رحمت کی حدود نہیں ہیں۔لیکن توبہ کا مطلب یہ ہے کہ آپ اس برائی کوبرائی مان لیں۔ سب سے پہلے چھوڑنے کا جو سبب بنتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ غلطی کو غلطی مانیں کہ میں غلط کر رہا ہوں جوکہ گناہ ہے اور اس کے بعد اللہ سے دعا کریں یا اللہ میں گناہ کر رہا تھا، اب میں نے بس کردیا۔ آئندہ کبھی گناہ نہیں کروں گا باقی زندگی اس کے دفاع پرصرف کرے،یہ توبہ ہے۔
فرمایابرزخ کھل جانے تک توبہ کا وقت ہے۔ جب موت آ جاتی ہے جو لمحات موت کے ہوتے ہیں، اس میں تو کافر کو بھی فرشتے نظر آنے لگ جاتے ہیں،آخرت واضح ہوجاتی ہے۔قرآن کریم نے ذکر فرمایا ہے کہ فرشتے اسے کہتے ہیں۔ فِیْمَ کُنْتُمْ (النِّسَآء ِ: ۷۹) تم نے کہاں عمر ضائع کی؟ اللہ نے تمہیں شعور دیا، عقل دی، نبی مبعوث فرمائے،کتابیں نازل فرمائیں۔تم کیا کرتے رہے ہو؟   فِیْمَ کُنْتُم کہاں جھک مارتے رہے ہو؟  قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ  فِی الْاَرْضِ تو وہ کہتا ہے میں زمین پر ایک غریب آدمی تھا، جدھرحکمران یا امیر لوگ جنہیں لیڈر کہتے ہیں، وہ چلتے رہے تو ہم تو عام آدمی تھے،پیروکار قسم کے آدمی تھے۔ ہم ان کے پیچھے چلتے رہے۔ فرشتے کہتے ہیں   اَلَمْ  تَکُنْ   اَرْضُ  اللّٰہِ  وَاسِعَۃً   فَتُھَاجِرُوْا  فِیْھَا  اللہ کی زمین وسیع نہیں تھی،یہاں کا ماحول برا تھا یا یہاں کے قوانین خلاف ِاسلام تھے یا یہاں کا معاشرہ خلافِ اسلام تھا۔تم حرام کھانے پر یا گناہ کرنے پریا جھوٹ بولنے پر مجبور ہوجاتے تھے تو تم نے اس کو چھوڑ کیوں نہ دیا؟ اللہ کی زمین وسیع ہے۔ وہاں سے چلے جاتے جہاں نیکی سے کم از کم رکاوٹ تو نہ ہوتی۔آج ساری دنیاچھوڑ کر جارہے ہو پھر یہ کہناکہ میری یہ مجبوری وہ مجبوری تو وہ مجبویاں اب کہاں ہیں؟ آج دنیا چھوڑ رہے ہو،اس وقت تم برائی کا ماحول چھوڑ دیتے تو کتنا اچھا ہوتا؟اس میں علماء فرماتے ہیں کہ جہاں ماحول ایسا ہو کہ وہاں مجبوراً معاشرے کا جو پریشر ہے،سوسائٹی کاجو ایک دباؤ ہے۔اس کے تحت آپ بھلائی کر نہیں سکتے مجبوراً کچھ گناہ کرنا پڑ جاتے ہیں،وہاں سے ہجرت واجب ہوجاتی ہے۔وہاں سے نکل جاؤ۔اب یہ وطن عزیز ہے۔ہم کہتے ہیں یہاں قانون شرعی نہیں ہے،عدلیہ کا قانون شرعی نہیں ہے۔سیاسی نظام غیرشرعی ہے۔ سارا شور مچا رہتا ہے لیکن ایک بات جس پر سب کواتفاق کرنا پڑے گا کہ کوئی نیکی کرنا چاہے تو روکتا کوئی نہیں۔معاشرہ یا ماحول یا سوسائٹی کوئی چیز آڑے نہیں آتی۔قانون، آئین،دستور، عدالت،آپ نیکی کرنا چاہیں تو کوئی نہیں روکتا۔جہاں نیکی سے روکاجاتا ہے۔ وہاں سے چھوڑ کر وہاں آجاؤ جہاں کوئی نیکی سے روکتا نہیں۔ہمارا یہاں کا ماحول بھی اس کے الٹ جارہا ہے۔ ہر بندے کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ یہاں سے نکل کر میں امریکہ،برطانیہ، یورپ یا کہیں اور چلا جاؤں حالانکہ وہاں سے یہاں آنے کا مشورہ ہے۔
تو یہ بھی توبہ کا ایک رخ ہے کہ اللہ کریم نے جو ارشاد فرمایا ہے اس پر یقین کامل ہونا چاہئے۔فرمایا  وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّاعَلَی اللّٰہِ رِزْقُھَا(ھُوْدٍ:۶) ہر ذی روح جو زمین پر ہے مکھی، مچھر،کیڑہ مکوڑہ، پرندہ،کوئی جانور یا انسان کی روزی،جو حیات کا سبب ہے۔ اس کا ذمہ میرا ہے۔ جب اللہ کا ذمہ ہے تواس پراعتبار کرو۔اگر وہاں جاؤگے تو رزق وہی ملے گا جو تمہارے نصیب کا ہے۔جو اللہ کاذمہ ہے ہمیں اس کی فکرہے۔ جو ہمارے ذمے ہے وہ ہم کہتے ہیں اللہ رحم کرے گا۔ہمارے ذمہ ہے کہ ہم نبی پاک ﷺ کے ارشادات کی روشنی میں قرآن کی روشنی میں اس بات کو متعین کریں کہ اچھائی کیا ہے؟ برائی کیا ہے؟ حضور ﷺ نے کس چیز کو اچھا کہاہے؟کس کو برا کہا ہے؟ اس کے مطابق  وَمَآاٰتٰئکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ جو اللہ کے رسول  ﷺنے عطا فرمایا اسے قابو کر لو، چمٹ جاؤ،اسے اختیار کرلو   وَمَا نَھٰئکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا (الْحَشْرِ:۷)  جہاں سے روک دیں وہاں سے رک جاؤ۔
اگر بندہ بے مہار چلتا رہاہے اور اس کو احساس ہوگیا ہے تو اس اپنے عمل کو تبدیل کرے۔ اس برائی کو چھوڑ دے اور ایسا چھوڑے کہ آئندہ کے لیے نصیحت ہوجائے۔نصیحت ہوتی ہے دوسروں کے لیے۔ دوسروں کے لیے مثال بن جائے کہ ایسے بھی کیا جاسکتا ہے۔یہ توبہ ہے اور کسی کے گناہ کتنے ہی زیادہ ہوں۔ بلکہ ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ کوئی گناہگار اتنے گناہ کرے کہ اس نے زمین و آسمان کے درمیان سارے خلاء کو گناہوں سے بھر دیا ہوتو ایک توبہ کافی ہے اور توبہ کی امید پر گناہ کرنا توظلم ہے جیسے تریاق کی امید پر کوئی سانپ سے ڈسوا لے۔کیاکوئی ڈسواتا ہے؟کوئی رسک لیتا ہے۔آپ تریاق کا انجیکشن جو سانپ کے زہر کا اتار ہے اس کے ہاتھ میں دیں اور اسے کہیں سانپ سے ڈسواؤ توبہ کی امید پر گناہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے انجیکشن ہاتھ میں ہو اور خودسانپ سے ڈسوا لے۔وہ انجیکشن اثر کر ے گا یا نہیں سانپ تو اثر کرجائے گا۔یہ ظلم ہے زیادتی ہے اسے جہالت کہیں گے۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔



انسان فرشتہ کیسے بن سکتا ہے

Watch Insaan Farishta Kaise ban sakta hai YouTube Video

مسلمان حکمرانوں کا کردار

Watch Muslman hukmrano ka kirdar YouTube Video

بے راہ روی سے حفاظت

Watch Be rah rawi say hifazat YouTube Video

آج معاشرے میں بے حیائی اور بے راہ روی عام ہوگئی ہے


آج معاشرے میں بے حیائی اور بے راہ روی عام ہوگئی ہے۔ہر کوئی اس سے پریشا ن ہے کہ اس سے کیسے بچا جائے؟ اگر نماز باقاعدگی سے اہتمام کے ساتھ ادا کی جائے تو ان شاء اللہ اس برائی کے سمندر میں حفاظت الٰہی نصیب ہو گی۔اور یہ علاج بندہ مومن کو 14 سو سال پہلے انعام کے طور پر عطا ہوا ان خیالات کا اظہار امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان نےجمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔
  انہوں نے کہا کہ معراج شریف کی رات آپ ﷺ کو 50 نمازوں کا حکم ہوا پھر تخفیف کرتے کرتے پانچ کی ادائیگی اُمت کے لیے مقرر ہوئیں۔لیکن ان پانچ کی ادائیگی کرنے پر اجر پچاس نمازوں کا ہوگا۔یاد رکھیں دین اسلام کا ہر پہلو ہماری ضرورت ہے اور اسی میں ہی ہماری بھلائی ہے۔دین اسلام دنیا کے ہر شعبے کے متعلق جواب دیتا ہے ابھی حضرت انسان کو فرصت ہے کہ وہ اعمال صالح اختیار کر سکتا ہے اور اس پر بحیثیت مسافر منزل با منزل گامزن ہے۔زندگی لمحہ لمحہ گزر رہی ہے۔انسان کا کردار شہادت دے رہا ہوتا ہے کہ وہ کیسی راہ پر ہے اس کے مطابق ہی اسے منزل ملے گی۔ اسوہ حسنہ ﷺ ایسا خوبصورت نمونہ اللہ کریم کی طرف سے عطا  ہواہے کہ آخری انسان تک کے لیے نشان منزل ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دین اسلام کو خود اپنائیں اسے کسی عالم،پیر یا مولوی کے ذمہ لگا کر خود فارغ ہو کر نہ بیٹھ جائیں،بلکہ اسے جانیں،عمل کریں اور قائم رہیں۔ہر ایک کو روز آخرت اپنے ایک ایک قول و فعل کا حساب دینا ہے جتنا کسی کے پاس اختیار ہے،طاقت ہے ان سب امور کے بارے پوچھا جائے گا  اس لیے ہمیں اپنے آپ کو دیکھنا ہے کہ اللہ کریم کی دی ہوئی ان نعمتوں کو کس راہ پر خرچ کر رہا ہوں۔زیادہ وقت نہیں ہے محدود وقت ہے نتیجہ سامنے ہوگا۔کفرو شرک کرنا اور پھر اپنی مرضی کے مطابق اعلان کرنا،آج ہم اپنی عبادات کو ضروریات دنیا کے لیے اختیار کرتے ہیں یہ بہت نازک مسئلہ ہے ہمیں اپنی نیت کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا فرمائی۔
Aaj muashray mein be hiyai aur be raah rawi aam ho gayi hai - 1

تخلیہ سے کیا مراد ہے

Watch Takhlia say kia murad hai YouTube Video

صالح عمل کا پھل

Watch Saleh Amal ka Phal YouTube Video

جب عمل اللہ کی خوشنودی کے لیے اختیار کیا جاتا ہے تو پھر دنیا کی احتیاج نہیں رہتی


انسانی مزاج ہے کہ جزااورسزاکے اطلاق کے مطابق عمل اختیار کرتا ہے جہاں اس کو یقین ہو کہ قانون پر نفاذ ہوتے ہوئے جزااور سزا ملے گی  اس معاشرے میں جرائم کی شرح بہت کم ہوتی ہے اوروہاں بہت حد تک امن ہوتا ہے اور یہ قوانین انسان کے بنائے ہوئے ہوتے ہیںاگر وہ قوانین جو اللہ کریم نے انسان کے لیے بنائے ہیں ان کو اگر ملک میں نافذ کر دیا جائے تو معاشرے میں واقعی عدل ہو گا  مساوات ہوگی اور ہر ایک کیلیے بھلائی ہو گی اور زندگی کے ہر شعبے میں ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا  ان خیالات کا اظہار  امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشنبدیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان نے جمعۃ المبارک کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہر انسان کی استطاعت ہر پہلو سے مختلف ہوتی ہے جسمانی لحاظ سے دیکھ لیں یا ذہنی حوالے سے جائزہ لیا جائے تو ہرایک کی اپنی حیثیت ہوتی ہے اصل بات یہ ہے کہ ہمیں آخرت کی جزااور سزا کو سامنے رکھناہے اوراس کا اتنا یقین ہو کہ میرا ہر عمل اللہ کی حضور پیش ہونا ہے اور مجھے میر ے اعمال کے مطابق جزااور سزا ملنی ہے تو پھر بندے کا ہر عمل خالص اُس بارگاہ کے لیے ہو گایہ تب ہی ممکن ہو گا جب ایمان بل آخر مظبوط ہوگا اور پھر جو عمل ظاہرا" صالح ہو گا اور اس کی نیت کی درستگی سے باطنی طور پربھی نیک عمل کہلائے گا اور جب عمل اللہ کی خوشنودی کے لیے اختیار کیا جاتا ہے تو پھر دنیا کی احتیاج نہیں رہتی اور اگر ہم  اپنے سے پہلے جو اس دنیا سے چلے گئے ہیں انکو دیکھیںتو ان کی قبروں کے نشان تک مٹ چکے ہیں تو پھر اپنے آپ کو بھی ان کی جگہ رکھ کر دیکھیں تو پھر ہمیں اصل زندگی کا احساس ہو گا آپ وﷺ کا ارشاد ہے جس طرح دن ڈھل رہا ہو عصر کا وقت ہے اسی طرح اس دنیا کا وقت شام کے قریب پہنچ چکا ہے ہماری  زندگی تو کسی بھی لمحے برزخ میں منتقل ہو سکتی ہے اللہ کریم ہمیں دارالعمل سے برزخ میں حالت ایمان سے داخل فرمائیں 
Jab amal Allah ki khushnodi kay liye ikhtiyar kya jata hai to phir duniya ki ehtiaaj nahi rehti - 1