Featured Events


روزے دار کو حضور حق کی ایک کیفیت نصیب ہوتی ہے کہ وہ جہاں بھی ہو خود کو اللہ کے روبرو محسوس کرتا ہے


رمضان المبارک کا پہلا عشرہ رحمت ہے ہمیں اپنی کمی بیشی کا تدارک کرتے ہوئے اللہ کریم کے احکامات کی بجا آوری لانا ہے۔اور جب شیاطین قید ہیں تو ہمارا اُٹھایا گیا غلط قدم غیر رمضان میں کیے گئے گنا ہوں کے نتیجہ میں ہے۔رحمت باری سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اللہ کریم سے بخشش طلب کی جائے اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم کیا جائے۔ امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا رمضان المبارک کے پہلے جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب
  انہوں نے کہا کہ اللہ کریم کا احسان کہ ہمیں ایمان عطا فرمایا اور نبی کریم ﷺ کی بعثت سے نوازا۔اپنے ذاتی کلام سے سرفراز فرمایا اتنی عطا ذرا غور تو کریں اس کے علاوہ رمضان المبارک جیسا مہینہ پھر اس کی برکات،  انسان کو بہانوں سے عطا کیا جا رہا ہے۔ اس مبارک مہینے میں اللہ کریم بندہ مومن کو اوصاف ملکوتی کے لیے مخصوص وقت میں حلال رزق سے بھی روک دیا جاتا ہے۔کہ میرے بندے میں ملائکہ جیسے اوصاف پیدا ہوں۔تو عبادت سے مراد اطاعت ہے بندگی ہے جو حکم ہوگیا بس اس کی اطاعت کرنی ہے۔پھر روزے دار کو حضور حق کی ایک کیفیت نصیب ہوتی ہے کہ وہ جہاں بھی ہو خود کو اللہ کے روبرو محسوس کرتا ہے کہ اکیلا بھی ہو تب بھی کچھ نہیں کھاتا پیتا کہ میرا اللہ مجھے دیکھ رہا ہے  اگر باقی گیارہ ماہ بھی یہ کیفیت نصیب ہو تو پھر زندگی کیسی ہو جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ رمضان المبارک کے 30 روزے گنتی کے دن ہیں کسی دوسرے کو ترازو میں رکھنے کی بجائے خود کو دیکھیں پہلا عشرہ اپنی بے پناہ رحمتوں کے ساتھ ہماری زندگی میں ایک بار پھر اللہ کریم نے عطا فرمایا ہے روزے کی وہ کیفیت جو ہمیں اللہ کے روبرو کر دیتی ہے ہماری عملی زندگی میں اس کے کیا اثرات آئے ہیں،اگر ٓج بھی ہم وہی نافرمانیاں کر رہے ہیں جو کرنے کے بعد ہم انہیں شیطان کے ذمہ لگا دیتے تھے تو شیطان تو رمضان المبارک میں قید کر دئیے جاتے ہیں پھر ہم سے یہ نافرمانی کیوں ہو رہی ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ روش جو ہم نے شیطان کی پیروی کرتے ہوئے اپنائی وہ شیطنت اس قدر ہمارے اندر رچ بس گئی ہے کہ اب وہی شیطانی کام ہم خود کر رہے ہیں۔  زندگی کے ہر پہلو میں حدودو قیود مقرر ہیں انہیں اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔
Rozay daar ko huzoor haq ki aik kefiyat naseeb hoti hai ke woh jahan bhi ho khud ko Allah ke rubaroo mehsoos karta hai - 1

اطلاع برائے ذکر اوقات

Itla Bara-e-Oqaat Zikr - 1

رمضان المبارک کا حاصل

Watch Ramzan ul Mubarak ka Hasil YouTube Video

استقبال رمضان

Watch Istaqbal-e-Ramzan YouTube Video

کیا روح کو بھی موت آتی ہے

Watch Kia Rooh ko b maut ati hai YouTube Video

انسانیت کوئی مذہب نہیں

Watch Insaniat koi Mazhab nahi YouTube Video

انسانیت کوئی مذہب نہیں،مذہب دین اسلام ہے جو انسانیت کا درس دیتا ہے


انسانیت کوئی مذہب نہیں،مذہب دین اسلام ہے جو انسانیت کا درس دیتا ہے جہاں سے دین اسلام کو اُٹھا لیا جائے وہاں پھر انسانیت نہیں رہتی۔اللہ کریم ساری کائنات کے خالق ہیں آپ نے قرآن کریم میں بار بار والدین کے حقوق، اولاد کے حقوق بیان فرمائے ہیں کیونکہ مرد اور خاتون انسانی معاشرے کی بنیادی اکائی ہیں اور افزائش نسل کا سبب ہیں آنے والی نسلوں کا انحصار انہی دو اکائیوں پر ہے اگر ان میں بگاڑ آئے گا تو سارا معاشرہ متاثر ہوگا۔امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب۔
  انہوں نے کہا کہ اولاد کی تربیت نہ کرنا ہمیشہ کی تکلیف کا سبب بنتا ہے۔اولاد کی تربیت کے لیے ضروری ہے کہ والدین خود باعمل ہوں جب ہم خود عمل نہیں کریں گے تو اولاد کیسے سبق حاصل کرے گی تبلیغ کا سب سے خوبصورت انداز کردار ہے جو ہمیں صحابہ کرام ؓ سے ملتا ہے جنہوں نے براہ راست نبی کریم ﷺ سے تربیت لی۔آج ہر کوئی آزادی کی بات کرتا ہے کہ ہمیں آزادی چاہیے۔انسانی آزادی وہ ہے جو اللہ کریم نے عطا فرمائی ہے اس سے آگے بڑھیں گے تو فساد ہوگا،خرابی آئے گی۔آج بے دینی کو انسانی آزادی کہا جاتا ہے ہر ملک اپنے قانون کے تحت آزادی دیتا ہے اللہ کریم نے جو حدودو قیود مقرر فرمائی ہیں اس بات کی سمجھ کیوں نہیں آتی۔ہمیں اپنی اولاد کو دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی دینی چاہیے تا کہ علوم حاصل کرنے کے ساتھ ان کی تربیت بھی ہو کیونکہ تعلیم میں اگر کمی رہ جائے تو تربیت اس کو پورا کر دیتی ہے اگر تربیت میں کمی رہ جائے تو پھر اسے کوئی پورا نہیں کر سکتا۔دنیاوی علوم حاصل کریں لیکن دنیا ہی کو کل جاننا درست نہیں۔اولاد کو تعلیم دلوائیں ان کو ذریعہ معاش کے قابل بنائیں یہ سب والدین کی ذمہ داری میں شامل ہے۔۔ اللہ کریم اپنی مقرر کردہ حدود کے مطابق ہمیں اپنی زندگیاں بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔اللہ کریم ہمیں صحیح شعور عطا فرمائیں۔
Insaniat koi mazhab nahi Mazhab Deen-e-Islam hai jo Insaaniat ka dars deta hai - 1

اخلاص کا حصول

Watch Ikhlas ka Hasool YouTube Video

عبادات کا اجر گنتی سے نہیں بلکہ اس بات پر ہے کہ اس کی ادائیگی کتنے خلوص سے کی گئی ہے


عبادات کا اجر گنتی سے نہیں بلکہ اس بات پر ہے کہ اس کی ادائیگی کتنے خلوص سے کی گئی ہے آج اگر کوئی اُحد پہاڑ جتنا سونا اللہ کی راہ میں دے اور ایک صحابی ؓ ایک مُٹھ جَو اللہ کی راہ میں خرچ کریں تو اجر کے لحاظ سے سونے پر بھاری ہوں گے کیو نکہ نیت اور اخلاص غیر صحابی کا صحابی کے برابر ہونہیں سکتا۔
  امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب۔
  انہوں نے کہاکہ ذکر قلبی ان کیفیات کے حصول کے لیے اختیار کیا جاتا ہے جو کہ قلب اطہرمحمد الرسول اللہ ﷺ سے آرہی ہیں اور یہی وہ کیفیات ہیں جو بندہ کے قلب کے اندر وہ خلوص پیدا کرتی ہیں جو کہ ہر نیکی کی بنیاد ہے۔اور یہ کیفیات ایک تسلسل کے تحت آرہی ہوتی ہیں اور آگے تقسیم ہورہی ہوتی ہیں۔اگر کوئی اس سے منسلک ہوئے بغیر چاہے کہ یہ حاصل ہو جائیں تو یہ ممکن نہ ہوگا ۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔
  یاد رہے کہ اس ماہ دارالعرفان منارہ میں اپریل 2021 کا ماہانہ اجتماع  رمضان المبارک کے اجتماعی اعتکاف کی وجہ سے منعقدنہیں ہو رہا۔
Ibadaat ka ajar ginti se nahi balkay is baat par hai ke is ki adaigi kitney khuloos se ki gayi hai - 1

اولاد


 وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِِمَامًا (الفرقان:74)
”اے ہمارے پروردگار! ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک (راحت) عطا فرمائیے اور ہم کو پرہیز گاروں کا پیشوا بنا دیجیے۔“
اولاد  عر بی اور اردو زبان کا لفظ اور صیغہ تانیث ہے۔یہ وَلد کی جمع ہے جس سے مُراد بچے، بیٹا بیٹی، آل اور نسل کے ہیں۔
روئے زمین پہ اترنے کے بعد انسان سب سے پہلے جس خوبصورت رشتے سے نوازا گیا وہ اولاد کا رشتہ ہے۔اس رشتے کا دلچسپ پہلو یہ تھاکہ اس میں ایک نے دوسرے کی حفاظت، پرورش اور تربیت کرنا تھی۔ اپنے شعور و آگہی کو اس میں منتقل کرنا تھا۔موسم ہی نہیں زمانہ کے سردو گرم سے بچانے اور اس سے نپٹنے کا اہل بنانا تھا۔فقط یہی نہیں اُسے،اُس کے خالقِ حقیقی سے آشنا کرانا تھا۔مقصدِ تخلیق سمجھانا اور اس پہ پورا اُترنے کے قابل بنانا تھا۔یہ تما م تر مراحل ایسے تھے کہ جس کے لیے محنت اور سعیئ مسلسل ہی نہیں لگن بھی ضروری تھی جس کے لیے شدید ترین وابستگی اور جذبہئ محبت کا ہوناناگزیر تھا۔اُس خالقِ کائنات نے،رب العالمین نے تخلیقی طور پر ہی قلب ِانسانی کو اس سے معمور فرما دیا۔یوں بھی یہ ایسا خوبصورت رشتہ عطا فرما یا کہ شعوری اور غیر شعوری طور پر دنیوی حیات اس کے گرد سرگرداں رہتی ہے۔انسان اولاد کو پیدائش سے جوانی تک پروان چڑھاتا ہے اور اُسے دیکھ دیکھ کر تگ و دو کرنے کی تحریک پاتا رہتا ہے۔
رشتوں، بندھنوں، تعلقات و واسطوں کے لیے بِلا شبہ محبت، حیاتِ انسانی میں انتہائی اہم اور لازمی جذبہ ہے لیکن یہاں اس سے بھی اہم اور لازمی بات یہ ہے کہ خالق و مخلوق کا رشتہ ہر رشتے پہ مقدم ہو اور سب محبتوں پہ اللہ کریم سے محبت غالب ہو کہ یہی خاصہئ ایما ن ہے
وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہ (البقرۃ:165)”اور جو لوگ ایمان رکھتے ہیں وہ اللہ سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں۔“
جذبہئ ایمانی کی معراج پہ سرفراز ہونے والی ہستیاں انبیاء علیھم السلام ہیں۔اسی جذبہئ ایمانی، حب ِالٰہی اور استقامت فی الدین کونسلِ انسانی میں فروغ دینے اور تاقیامت قائم رکھنے کے لیے انبیاء کرام علیھم السلا م نے بھی صالح اولاد کی دعائیں مانگیں۔ حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا ہی یہ ہے کہ:
  رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا ”اے میرے پروردگار! مجھے اکیلا نہ رکھیو“   وَّ اَنْتَ خَیْرُ الْوٰرِثِیْن(الانبیآء:89) ”اور آپ سب سے بہتر وارث ہیں۔“آپ علیہ السلام نے تبلیغ، فروغِ دین کے لیے اللہ تعالیٰ سے اولاد کی دعا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ ”توہم نے ان کی دعا قبول فرمائی“ و َ وَھَبْنَا لَہٗ یَحْیٰی(الانبیآء:90) ”اور ان کو یحییٰ(علیہ السلام) بخشے۔“
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت کے بعد عمرِ مبارک کافی گزر چکی تھی جب دعا فرمائی  رَبِِِِِِِِِِّ ہَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ  
(الصفٰت: 100)”اے میرے پروردگار مجھے ایک نیک فرزند عطا فرما۔“ اور اس کے نتیجہ میں اللہ کریم نے اسمٰعیل علیہ السلام عطا فرمائے۔اُنھیں کے ساتھ بیت اللہ کی بنیادیں اٹھاتے ہوئے آپؑ نے دعا فرمائی: رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِنَآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَّ------- (البقرۃ:128)
ّّ”اے ہمارے پروردگار! اور ہم دونوں کو اپنا فرمانبردار بنا ئیے اور ہماری اولاد میں ایسی جماعت بنائیے جو آپ کی فرما نبردار ہو...“
حضرت قاسمِ فیوضات رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ اُنھیں کی دعا کااثر ہے کہ ان کے بعد کبھی دنیا سے دین ختم نہیں ہوا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اُسی موقع پر مانگی جانے والی دعا تھی:  
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ---- (البقرۃ:129)”اے ہمارے پروردگار!ان میں انہی میں سے ایک پیغمبر بھیجئے (مبعوث فرمائیے)...“ 
اللہ کریم نے عالمین کو رحمۃللعٰلمین سے نواز دیا اور زمین کو آپ  ﷺکے قدوم مبارک چومنے کا شرف حاصل ہوا۔
اللہ کریم نے سورہئ الفرقان میں اپنے خاص بندوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے ان کی دعا یوں بیان فرمائی ہے کہ:
  رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِِمَامًا (الفرقان:74)
بیویوں اور اولاد کوآنکھوں کی ٹھنڈک بنانے سے مُراد  دراصل ان کا قربِ الٰہی میں مدد گار بننا ہے۔
قارئینِ کرام! اولاد انسان کا سرمایہئ حیات ہے،صدقہ جاریہ ہے، امانت ِرب العالمین ہے۔ یہ اُمت ِمحمدیہ  کے گلستان کے ننھے ننھے پودے ہیں جو بچپن میں ہماری آبیاری کے محتاج ہیں۔ یہ ہم پہ ہے کہ انسانیت کی راحت کے لیے انہیں کس حد تک تناور اور چھتناور اشجار بناتے ہیں۔یہ ہماری توجہ، محبت اور راہنمائی کا حق لے کر دنیا میں آتے ہیں۔ہمارے فرائض کا تقاضا ہے کہ انہیں بہترین مسلمان، سچے مومن اور جانثار امتی بنانے کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ چھوڑیں۔
حدیث ِ پاک ہے:
قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم کل مولود یولد علی الفطرۃ فابواہ یھودانہ او ینصرانہ او یمجسانہ...(صحیح البخاری،باب ما قیل فی اولادالمشرکین)
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر بچہ (فطرت)دین اسلام پر پیدا ہوتا ہے،پھر اس کے والدین اسے یہودی،نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں...“
Aulad - 1
Aulad - 2