Featured Events


حق و باطل


ڈپریشن کا علاج

Watch depression ka Ilaaj YouTube Video

دعا


 وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ ]البقرۃ2:186[
”اورجب میرے بندے آپ سے میرے متعلق پو چھیں تومیں قریب ہوں اور قبول کرتا ہوں پکا رنے والے کی دعا جب وہ مجھ سے مانگے پس چا ہیے کہ وہ میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان لا ئیں تا کہ وہ ہدا یت  پا ئیں۔“
لفظ دعا کے معنی مانگنا،التجا کرنا،بہتری کی خوا ہش اور مراد کے ہیں۔کسی کو کچھ سنا نے کے لیے پکا رنا بھی دعا کہلا تا ہے جیسا کہ سورہئ النمل میں ہے: وَ لَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ ]النمل27:80[ ”اور نہ بہروں کو اپنی آواز سنا سکتے ہیں۔“
اصطلاحاً دعا کے معنی اللہ تعا لیٰ سے مانگنے کے ہیں۔دعا ایک درخواست ہے،وسیلہ ہے،پکار ہے اور احساس کم ما ئیگی،بے اختیا ری،بے کسی و لا چا ری ہے۔انسان کا مقصد ِحیات معرفت ِالٰہی ہے،معرفت ِالٰہی کا تقا ضا عبا دتِ الٰہی اور عبا دتِ الٰہی کا حاصل قربِ الٰہی ہے۔حیا ت کی ابدیت اور مقصد ِحیا ت کی عظمت،قربِ ذات باری تعالیٰ ہے اور اسے پا نے کے لیے اس رحمن و رحیم نے اپنے بندوں کو ایک خو بصورت ذریعہ عطا فرما دیا کو ئی،کہیں سے بھی اور کبھی بھی اسے پکا ر سکتا ہے۔اِنَّ رَبِّیْ لَسَمِیْعُ الدُّعَآءِ]ابرٰھیم14:39[(بے شک میرا پروردگا ر دعا کو بہت سننے والا ہے)لفظ رب کا مطلب ہی ہر ضرورت مندکی،ہر ضرورت، ہر وقت اورہر جگہ پوری کرنے والا ہے۔
قا رئینِ کرام!ما نگا اس سے جا تا ہے جس پہ یقین ہو کہ وہی دے سکتا ہے۔پکا را اسے جا تا ہے جس پہ اعتبار ہو کہ وہ سن رہا ہے اور ذاتِ با ری پہ یہی ایمان عقیدہ اسلام کی بنیا د ہے لَہٗ دَعْوَۃُ الْحَقِّ      ]الرعد13:14[(اسی کے لیے پکا رنا سچا ہے)یہی ایقان آرزوؤں کو الفاظ کے روپ میں ڈھا لتا اور      خوا ہشوں کو زبا ن دیتا ہے۔
عبا دات کی روح اللہ بزرگ و برتر کی کبر یا ئی پہ ایمان اور اپنی کم مائیگی ولاچاری کا اظہا ر ہے اور یہی احساس دعا کا جزو کل ہے۔ حدیث ِپا ک ہے: 
الدعاء ھوالعبادۃ(سنن الترمذی)(دعاعین عبادت ہے)
اپنی حاجا ت کے لیے ہی سہی لیکن اس رحیم و کریم کو بندے کا اپنی طرف رجوع کرنا اتنا پسند ہے کہ  حضرت ابو ہریرۃ  ؓسے مروی حدیث ِپا ک ہے:
لیس شیء اکرم علی اللہ تعالی من الدعاء(سنن الترمذی)(اللہ کے نزدیک کو ئی چیز،کو ئی عمل دعا سے زیا دہ عزیز نہیں) بلکہ حضرت ابو ہریرہ  ؓ ہی نبی کریم  ﷺ کا یہ فرمان بھی روایت کرتے ہیں کہ:من لم یسال اللہ یغضب علیہ(سنن الترمذی)(جو اللہ سے سوال نہ کرے اللہ اس سے    نا راض ہو تا ہے)یہ شان ِکریمی و ادائے رحیمی کہیں اور کہا ں مل سکتی ہے۔
                ان کا کرم پھر ان کا کرم ہے   ان کے کرم کی بات نہ پو چھو
رحمت ِباری جہاں بندے کے مانگنے پہ متوجہ ہونے کو تیار ہے وہاں بندے کو اسلوب و اصولِ دعا تک تعلیم فرما ئے گئے ہیں۔قرآن مجید و فرقان حمید کی پہلی سورہئ فا تحہ پو ری کی پو ری آداب ِدعا کی تربیت دے رہی ہے کہ اپنے مالک سے مخا طب ہو نے سے پہلے بندہ اس ایمان کے سا تھ اس کی حمد و ثنا بیا ن کرے کہ تمام تر تعریفیں فقط اسی ذات کو سزا وار ہیں۔وہی رب اور پا لنہا ر ہے اس کی رحمت ِبے پا یا ں پہ کا مل یقین کے سا تھ اس سے مانگے کہ بلا شبہ رحمت ِحق بہانہ می جو ید (اللہ کی رحمت بہانے تلاش کرتی ہے)۔یہ سورہئ مبا رکہ یہ بھی سمجھا رہی ہے کہ بندہ کی سب سے پہلی اور سب سے بڑی طلب راہِ ہدا یت پہ چلنا ہو نی     چا ہیے کہ اس کے بغیر دنیا و ما فہیا بے معنی ہے۔
قا رئین ِکرام! اس سے بڑھ کر خیر خوا ہی کیا ہو گی کہ رب العالمین اپنے بندوں کو دعا کے لیے الفا ظ تک عطافرما دے۔قرآ ن پا ک کھو ل کردیکھیے ہر حاجت،ہر ضرورت،ہر احتیا ج کے لیے دعا مو جو د ہے۔ الفاظ اللہ کریم کے ہیں اور زبا ن اس کے اخص الخواص بندوں کی۔ہمیں فقط قلوب میں خلوص پیدا کرنے کی ضرورت ہے یا کم از کم پو ری توجہ،پو رے درد سے مانگنے کی کہ حدیث ِپا ک ہے: ان اللہ لا یستجیب دعاء من قلب غافل لاہ(سنن الترمذی)(اللہ اس کی دعا قبول نہیں کرتا جس کا دل (دعا کے وقت)اللہ سے غا فل او ر بے پرواہ ہو)
قا رئین ِکرام! دعا کی طا قت کا اندا زہ ہم نہیں لگاسکتے نبی کریم  ﷺ کا فرما ن ہے:الدعاء ینفع مما نزل ومما لم ینزل فعلیکم عباد اللہ بالدعاء(المستدرک)(دعا نازل شدہ مصیبت،اور جو ابھی نہیں نازل ہوئی ہے اس سے بچنے کا فائدہ دیتی ہے،تو اے اللہ کے بندو! تم اللہ سے برابر دعا کرتے رہو)
ایک ایسی ہستی جو ستر ما ؤ ں سے بڑ ھ کر محبت کرتی ہو،جسے پھیلے ہو ئے ہا تھوں کی حیا ہو،جو خود پکا رتی ہو من یدعونی فاستجیب لہ...(صحیح البخاری)(کون ہے جومجھ سے دعا کرے اور میں اس کی دعا کو قبول کروں)،اس کے سا منے پھیلے ہو ئے دامن کیو نکر خالی لو ٹا ئے جا سکتے ہیں۔وہ تو نہاں خانہئ دل میں نمو پا نے وا لی آرزؤوں تک سے وا قف ہے۔حضرت قا سم فیوضاتؒ فرمایا کرتے تھے ’خوا ہش بذات ِخود دعا ہو تی ہے،با ت تو یہ ہے کہ کو ئی مانگنے وا لا بھی ہو ہم تو مائل بہ کرم ہیں کو ئی سا ئل بھی تو ہو۔
اس سے مانگیے اور دل کھو ل کر مانگیے کہ مانگنا اسے محبوب ہے لیکن تین باتیں ذہن نشین کرنا ضروری ہیں۔ ہمیشہ حدود ِشریعی کے اندر رہ کر دعا مانگنا چاہیے۔بلا شبہ وہ بڑا کریم ہے لیکن وہ بہت غیور بھی ہے۔دوسرا دعا ایک استدعا ہوتی ہے،حکم ہر گز نہیں اور تیسرا اس کی قبولیت کے لیے جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے کہ عطا کا بہترین وقت وہ مسبب الاسباب بہتر جانتا ہے۔حدیث ِپاک ہے:
لا یزال العبد بخیرما لم یستعجل.....الخ(مسنداحمد)(بندے کی ہمیشہ خیر اور بھلائی ہے، جب تک کہ وہ جلد بازی نہیں کرتا۔صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ بندہ جلد بازی کس طرح کرتا ہے؟ آپ  ﷺ نے فرمایا جب وہ کہتا ہے کہ میں نے رب سے بہت دعا مانگی،لیکن میری دعا اس نے قبول نہیں کی)
اللہ کریم ہمیں اپنے لیے، اپنو ں کے لیے بھلائی و عا فیت ما نگنے کی تو فیق عطا فرما ئے اور اس خلوص سے    نوا زے جو اس کی با رگا ہ میں درجہ ئ  قبو لیت رکھتا ہو۔




Dua - 1
Dua - 2

اتباع محمد الرسول اللہ ﷺ کے بغیر خالق اور مخلوق کا رشتہ سمجھ میں نہیں آسکتا


جو کچھ عطا فرمایا گیا ہے اس پر عمل پیرا ہونا کامیابی سے ہمکنار کرے گا اللہ کی رضا نصیب ہوگی۔اس کی بخشش نصیب ہوگی وہ کچھ نصیب ہو گا جو بندہ سوچ بھی نہیں سکتا۔شرط یہ ہے کہ جو وعدہ کلمہ طیبہ کی صورت میں کیا گیا اسے پورا کریں۔عطا کرنا اللہ کریم کی شان ہے اللہ کریم نے جو پیدا فرمایا ہے اس کا شکر ساری زندگی ادا کرتے رہیں وہ ادا نہیں ہوتا چہ جائیکہ وہ اور انعامات بھی عطا فرمائے اپنی رضا عطا فرمائے اپنا قرب عطا فرمائے۔اپنے مقرب بندوں میں داخل فرمائے۔یہ وہ کیفیت اور حال ہے جو اطاعت میں لاتا ہے۔
امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب
انہوں نے کہا کہ ہم اُس کی مخلوق ہیں یہ اس کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں پیدا فرمایا جو عبادات ہم کرتے ہیں ان سے اس قابل ہوتے ہیں کہ اس کی بندگی نصیب ہوجو معاملات ہم اس کے مانتے ہیں اس سے انسان کی بقا منسوب ہے۔ہم اپنے بچوں کی پرورش کرتے ہیں ان کا خیال رکھتے ہیں تو وہ کریم اجروثواب عطا فرماتا ہے،اپنے والدین کی خدمت کر رہے ہوتے ہیں خیال رکھتے ہیں وہ کریم اس پر خوش ہوکر اجر وثواب عطا فرما رہا ہے۔احکامات دین ہمارے قلب سے ظاہر تک ہمیں اس قابل کرتے ہیں کہ ہم اپنی ذمہ داریاں ادا کر سکیں اس ساری راہنمائی میں کوئی حصہ ایسا نہیں جس میں تشنگی رہ گئی ہو۔اسی دنیا کی زندگی اطمینان بخش ہو جاتی ہے جیسے اعمال اختیار کیے ہوتے ہیں ویسے ہی اثرات بھی ہوتے ہیں۔
  انہوں نے مزید کہا کہ آج ہر دوسرا بندہ خوف میں مبتلا ہے ڈپریشن کا شکار ہے عجیب قسم کے خوف ہیں۔اللہ کریم نے ہر قسم کی ضرورت کا جواب پہلے سے ارشاد فرمادیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ میرا اللہ کریم کے ساتھ کیسا تعلق ہے نبی کریم ﷺ کے ساتھ جو اُمتی کا رشتہ ہے وہ کیسا ہے۔آپ ﷺ کا اتبا ع کس حد تک ہے یہ سب دیکھنے کی ضرورت ہے پھر کوئی ڈر یا خوف نہیں ہو گا یہ سارا خوف ہمارے کردار کی وجہ سے ہے ہمارے اعمال ہی ہمیں ڈرا رہے ہوتے ہیں۔ہر انسان کے اندر یہ استعداد موجو د ہے کہ وہ صحیح اور غلط کی پہچان کر سکے۔یہ خوف صرف اور صرف بے عملی کی وجہ سے ہے ہماری زندگی بے عملی کا شکار ہیں۔ہمارے دعوی ایمان میں اتنی قوت نہیں کہ عمل تک لے جائے۔ وہ اصول اپنی زندگیوں پر نافذ کریں جو قرآن و سنت ہمیں عطا فرما رہے ہیں۔
  یاد رہے کہ دارالعرفان منارہ میں 10 اکتوبر بروز اتوار دن 11:00 بجے ماہانہ اجتماع کے موقع  پر حضرت امیر عبدالقدیر اعوان مد ظلہ العالی بعثت رحمت عالم ﷺ کے موضوع پر خصوصی خطاب فرمائیں گے اور اجتماعی دعا بھی ہوگی ہر خاص و عام کو دعوت دی جاتی ہے کہ اس بابرکت پروگرام میں شرکت فرما کر اپنے قلوب کو برکات نبوت ﷺ سے منور فرمائیں۔
itebaa Mohammad-ur-Rasool Allah SAW ke baghair khaaliq aur makhlooq ka rishta samajh mein nahi aa sakta - 1

شیطان ہر وا ر سے ہمیں اللہ کریم سے دور کرنے کی کوشش کرتا ہے


اللہ کریم نے بنی آدم کو تمام مخلوقات پر فضیلت بخشی ہے اور حضرت آدم ؑ کو نوری مخلوق نے سجدہ کر کے اس کی قربت اور نیابت کو تسلیم کیا۔اس احسان عظیم کا شکر ادا کرنا اور اپنی حدود میں رہ کر اپنے فرائض کی بجا آوری لانا ہے اور ایسے امور کو زیر بحث نہ لایا جائے جن سے متعلق روز محشر پوچھا نہ جائے گا۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستا ن کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب 
  انہوں نے مزید کہا کہ کسی دوسرے کے متعلق ہماری ابتداء منفی سوچ کے تحت ہو تی ہے۔جو کہ من حیث القوم درست نہ ہے ہمیں دوسروں کے لیے اچھائی کا گمان رکھنا چاہیے۔ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ انسان بشر ہے اور اس میں خطا کرنے کا عنصر ہمہ وقت موجود ہے  اللہ کریم اس بات کو پسند فرماتے ہیں کہ یہ مخلوق غلطی کرے اور پھر اس پر نادم ہو کر معافی کی طلب گار ہو اور ایک جگہ ارشاد ہے کہ اگر یہ مخلوق غلطیاں چھوڑ دے تو اللہ کریم اس کی جگہ ایسی مخلوق پیدا فرمائیں گے جو غلطی کرے اور پھر اپنے اللہ کریم سے اس کی معافی بھی طلب کرے کیونکہ اللہ کریم کو معاف کرنا محبوب ہے آپ بہت رحم کرنے والے ہیں۔
  یاد رہے کہ 10 اکتوبر بروز اتوار دارالعرفان منارہ  میں سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کے زیر اہتمام ماہ مبارک ربیع الاول کی مناسبت سے جلسہ بعثت رحمت عالم ﷺ کے موضوع پر بہت بڑے جلسہ کا انعقاد کیا جارہا ہے جس میں حضرت امیر عبدالقدیر اعوان مد ظلہ العالی خصوصی خطاب  فرمائیں گے اور اجتماعی دعا بھی ہو گی خواتین و حضرات کے لیے دعوت عام ہے اس بابرکت پروگرام میں شرکت فرما کر اپنے قلوب کو منور فرمائیں۔
  آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا فرمائی۔

shetan har wa ray se hamein Allah kareem se door karne ki koshish karta hai - 1

معافی کا طلب گار

Watch Maafi ka Talabgaar YouTube Video

دین اسلام کی خوبصورتی


حج اکبر

Watch Hajj-e-Akbar YouTube Video

سجدہ کا حکم

Watch Sajdah ka Hukm YouTube Video

بندہ تکبر اور خراب نیت کی وجہ سے صحیح راستہ اختیار نہیں کر سکتا


ہم اپنا عمل چھوڑ کر ساری بحث دوسروں پر کر رہے ہوتے ہیں۔جب کوئی تکبر میں آکر بحث کرتا ہے تو وہ نہیں چاہتا کہ کوئی میری بات کو رد کرے۔ابلیس کے انکار کا سبب بھی تکبر ہی تھا کہ میرے جیسا کوئی نہیں اللہ کریم کی ذات تو علیم ہے وہ جانتے ہیں کہ کس نے کب کیا کرنا ہے اسی لیے اللہ کریم فرماتے ہیں کہ وہ تھا ہی کافروں میں سے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم خود کو دیکھیں کہ اپنے روز مرہ کے معاملات میں اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کا اتباع کر رہے ہیں یا اپنی پسند کو ترجیح دے رہے ہیں۔ابلیس اللہ کریم کو مانتا تھا لیکن اللہ کریم کی نا مانی تو پھر ماننا کیسا؟
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب
  انہوں نے کہا کہ سب سے بڑی ذات اللہ کریم کی ہے پھر مخلوق تکبر کا کیسے سوچ سکتی ہے۔اپنے شب و روز کو اللہ کی یاد سے روشن کریں، اللہ کریم کی رضا کے ساتھ جب اس کا قرب نصیب ہوگا تو لمحہ لمحہ قیمتی ہوتا چلا جائے گا۔جتنی سمجھ نصیب ہوگی اتنی تڑپ نصیب ہوتی چلی جائے گی۔ جن و انس دو مکلف مخلوق ہیں جنات کو اس دنیا میں انسان سے پہلے پیدا فرمایا گیا جنات کی عمریں بہت زیادہ ہوتی ہیں۔جب حساب کتاب کی بات آئے گی تو جنات کا حساب تو ہو گا لیکن جنت میں جانے کا ان کا کوئی واضح ذکر نہیں ملتا۔لیکن انسان کی حیات کا خاصہ کیونکہ اسکی روح ہے جو عالم امر سے ہے اور عالم امر کو فنا نہیں اس لیے انسان کو بھی فنا نہیں ہے یہ ہمیشہ رہے گا جنت میں ہو یا جہنم میں لیکن ہمیشہ کے لیے رہے گا۔جبکہ جنات کو یہ حصہ نصیب نہیں ہوا۔ابلیس بھی جنات میں سے ہے۔جنات کی دو قسمیں ہیں ایک وہ جو عمومی ہیں اور دوسرے جو ابلیس کی اولاد ہیں شیاطین میں سے، تکبر کیا اور ددکارا گیا مردود ٹھہرا۔تکبر ایسی حالت ہے اسے جتنا بھی چھپا لو کہیں نہ کہیں ظاہر ہو جاتی ہے چاہے کوئی دین کا کام بھی کر رہا ہو اگر اس میں تکبر موجود ہے تو وہ سمجھا رہا ہوگا کہ سب سے بڑی ذات اللہ کریم کی ہے لیکن ساتھ یہ بھی سوچ ہوگی کہ جو بات میں کہہ رہا ہوں یہ بات سب سے بہتر ہے اس کے مقابل کوئی بات نہ کرے۔اس کا علاج صرف اور صرف یاد الٰہی ہے یاد الٰہی سے ہمارے قلوب اس قابل ہوتے ہیں کہ ان میں انا،ضد اور تکبر ختم ہوتا جاتا ہے اور بندہ کو اللہ کریم کی عظمت کا ادراک ہوتا چلا جاتا ہے۔ اللہ کریم ہمیں صحیح شعور عطا فرمائیں۔
  آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا فرمائی۔
Bandah taqqabur aur kharab niyat ki wajah se sahih rasta ikhtiyar nahi kar sakta - 1