Featured Events


آپ ﷺ کی شان میں گستاخی کے مرتکب بد بخت ہیں


 آپ ﷺ کی شان میں گستاخی کے مرتکب بد بخت ہیں۔ چاہے وہ دنیا کے کسی حصے میں ہو یا وطن عزیز میں جو دین اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آیا۔لیکن ہمارے جذبات ہمارا غصہ آپ ﷺ کے احکامات کے تابع ہیں۔جہاں آپ ﷺ کا حکم ہے جان دینے کا وہاں اپنی جان پیش کرنا عین دین ہے اور جہاں جان لینے کا حکم ہے وہاں پر جان لینا دین اسلام ہے۔اس سے باہر اگر کوئی اپنی مرضی سے ایسا کرتا ہے تو وہ اپنی خواہش کا اسیر ہو کر قدم اُٹھا رہا ہے۔جو دین اسلام کے خلاف ہے۔اسلام ہمیں کسی جانور کو بھی نقصان نہ پہنچانے کا درس دیتا ہے چہ جائیکہ کسی انسان کی جان لی جائے۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستا ن کا ماہانہ اجتماع کے موقع پر سالکین کی بہت بڑی تعداد سے خطاب!
  انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ نے ریاست مدینہ کی جب بنیاد رکھی تو وہ مواخات مدینہ یعنی مہاجرین و انصار کے آپس میں بھائی چارے کے قیام کی بنیاد تھی جس سے معیشت کی مضبوط بنیاد  وجود میں آئی آج ہمارا ملک جو کہ اس کرہ ارض پر دین اسلام کے نام پر وجود میں آیا ہے ہم مہاجرین و انصار لڑ رہے ہیں ہم نے وہاں سے سبق حاصل نہیں کیا۔دوسرابنیادی اقدام میثاق مدینہ یعنی قانون اور عدل کا قیام آج ہم دونوں پر عمل نہیں کر رہے تو ہماری معیشت کیسے مضبوط ہوگی۔ہم نے دنیا کے قوانین اپنانے کی کوشش کی لیکن وہ نظام عدل جو کہ آپ ﷺ نے ہمیں دیا اس کو نہ اپنایا تو پھر لاقانونیت کا خاتمہ کیسے ہوگا۔وطن عزیز میں ہونے والے اس نا خوش گوار واقعہ نے ہر ایک کے جذبات کو مجروح کیا ہے ہمارے تمام اعمال دین اسلام کے خلاف ہیں اور بحث جو ہر فورم پر ہو رہی ہے اس کا نشانہ بھی اسلام کو رکھا گیا ہے 
 دیکھنا یہ ہے کہ اس سب کا سبب کیا ہے اس کے کونسے محرکات ہیں جس سے یہ سب کچھ عمل میں آیا۔اسلام اس بنیادی جواز کو ختم کرتا ہے اور یہ درس دیتا ہے کہ اپنی ذات سے نکلنے کی ضرورت ہے حکومت وقت کو چاہیے کہ اس واقعے کے پیچھے جو سبب ہے اس کو ختم کیا جائے اور مساوی عدل کا قیام عمل میں لایا جائے۔
آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا فرمائی۔
  یاد رہے کہ 7 دسمبر 2017 کو عظیم ہستی حضرت مولانا امیر محمد اکرم اعوان ؒ کا وصال ہوا جنہوں نے تصوف کے اس بہر بیکراں کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا اور آج ہم ان کیفیات و برکات سے سر شار ہیں یہ ان کا ہمارے اوپر بہت بڑا احسان ہے۔وہ ایک عظیم مفسر قرآن،مترجم قرآن،شاعر،ادیب اور بے شمار کتابوں کے مصنف تھے۔اللہ کریم ان کے درجات بلند فرمائیں ان کے وصال کے بعد ان کے مقرر کردہ جانشین حضرت امیر عبدالقدیر اعوان مد ظلہ العالی نے اس مشن کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنایا اور ان کے تمام شعبوں کو مزید فعال کر کے دن رات اس مشن کو لے کر چل رہے ہیں۔
Aap SAW ki shaan mein gustaakhi ke murtakib badbukhat hain - 1

دوروزہ ماہانہ روحانی اجتماع دارالعرفان منارہ

Mahana Rohani Ijtima Dar ul Irfan Munarah - 1

طرز حیات

Watch Tarz-e-Hayaat YouTube Video

اللہ کریم کے احکامات کو جاننا اور پھر ان پر عمل نہ کرنا فسق کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔


 اللہ کریم کے احکامات کو جاننا اور پھر ان پر عمل نہ کرنا فسق کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔آج معاشرے میں معاشی تنگی اور معاشرتی افراتفری کا سبب آپ ﷺ کے ارشادات کو جانتے ہوئے سمجھتے ہوئے اپنی عملی زندگی میں اختیار نہ کرنا ہے۔ہمارا کہنا کتنا ہی اعلیٰ کیوں نہ ہو جب تک ہمارا عمل اعلیٰ نہ ہوگا معاشرے میں مثبت نتائج مرتب نہ ہونگے۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب!
  انہوں نے کہا کہ اجتماعی خرابی اوپر سے شروع ہو کر ایک اکائی تک آتی ہے جو کہ انفرادی طور پر میرا اور آپ کا کردار ہے۔جب درستگی یہاں سے شروع ہو گی تو پھر معاشرے میں وہ امن اور سکون آئے گا جس کی بنیاد آپ ﷺ نے ریاست مدینہ میں رکھی تھی اور اس  کے بنیادی اصول آپ ﷺ نے فرما دئیے تھے۔قول و فعل کے تضاد سے نکل کر اپنے رزق کے اسباب تک کو اسلام کے مطابق کرنا ہو گا۔
  انہوں نے مزید کہا کہ معاشرے میں نفسا نفسی کی وجہ ضرورت سے زائد مال جمع کرنا ہے۔ حلال حرام کی تمیز کیے بغیر حق نا حق دیکھے بغیر ہر کوئی اس کوشش میں ہے کہ جو کچھ بھی میرے ہاتھ لگ جائے اس کو جمع کر لوں یہاں سے فساد شروع ہو تا ہے اور یہ سمجھ لینا کے رزق میں اپنے زور بازو حاصل کر رہا ہوں چاہے اس رزق کے لیے کسی کا حق کھانا پڑے کسی پر ظلم کرنا پڑے یہ وہ وجوہات ہیں جن کی بدولت معاشرہ افراتفری کا شکار ہے۔
  یار رہے کہ دارالعرفان منارہ میں 5,4 دسمبر بروز ہفتہ،اتوار  دو روزہ ماہانہ روحانی اجتماع کا انعقاد ہو رہا ہے جس میں ملک بھر سے سالکین اپنی روحانی تربیت کے لیے تشریف لاتے ہیں۔حضرت امیر عبدالقدیر اعوان مد ظلہ العالی اتوار دن گیارہ بجے خصوصی خطاب فرمائیں گے اور اجتماعی دعا بھی ہوگی۔تمام خواتین و حضرات کو دعوت عام دی جاتی ہے کہ اپنے دلوں کو برکات نبوت ﷺ سے منور کرنے کے لے تشریف لائیے۔
Allah kareem ke ehkamaat ko janna aur phir un par amal nah karna fisq ki soorat ikhtiyar kar jata hai . - 1

حضرت جی رحمۃ اللہ علیہ

 دنیا میں آنکھ کھو لنے سے لے کر میرے دنیا کوکھلی آنکھو ں سے دیکھنے تک کے تما م تر مر احل جس کی نگا ہ میں بسر ہو ئے وہ ریشم و فو لا د، شفقت و جلال سا دگی و جمال اور معصو میت و دا نش ِکمال کا بے حد حسین امتزاج تھے۔قدم قدم چلنے سے لے کر اپنے قدموں پہ کھڑا   ہو نے کے قا بل بنا نے تک،ان کی تر بیت چلتی ہو ئی سا نسوں کی طرح با لکل غیر محسو س اندا ز سے،میرے کردار کی تعمیر وتشکیل کرتی رہی۔گھر کی ذمہ دا ری تھی یا سلسلہ عا لیہ کی خدمت،انھو ں نے میری کم عمری کے با و جود جس اعتما د سے میرے کندھوں پہ ڈا لی وہ در حقیقت خود میرے اندر اعتماد پیدا کرنے کے لیے تھی۔
وہ میرے شیخ بھی تھے اور میرے وا لد بھی۔
سفرِ حیا ت میں یہ ان کی را ہنما ئی ہی تھی کہ امو رِ سلسلہ میں،کبھی بھی شفقت ِپدری کی رعا یت میرے ذہن میں آئی نہ آدابِ شیخ ملحو ظ    خا طر رکھتے ہو ئے بھی بحیثیت وا لد کبھی انہیں خود سے دور پا یا۔ وہ میری زندگی کا محور و مرکز تھے۔وہ میری منز ل بھی تھے اور نشا نِ منز ل بھی۔ان کی خو شنو دی مجھے اپنی ہر خو شی سی عزیز تر تھی اور وہ ذات،مجھے اپنی ذات سے بڑھ کر عزیز تھی۔گزرتے وقت کے سا تھ ساتھ میں، میں نہ رہا تھا ’وہ‘ہو گیا تھا۔ان کی خوا ہش، ان کی رضا،ان کی خو شی ان کی چا ہ ہمہ وقت میری جستجو میں رہتی اور مجھے سر گرمِ عمل رکھتی۔ان کے مز اج میں لحا ظ و مرو ت اس در جہ تھی کہ اپنی را ئے دینے کے بعد ان کی نگا ہ میری جا نب ضرور اٹھتی اور بحمد للہ مجھے سرِ تسلیم خم پا تی۔
قا رئین ِکرام والد اور پھر ایسے وا لد!  شیخ او ر پھر ایسے شیخ!!
انھوں نے کبھی بھی اولا د کو کو ئی حکم نہ دیا۔ہا ں یہ خوا ہش ضرور رکھتے تھے کہ اولا د بن کہے،ان کی رضا جا ن لے۔اس معا ملہ میں وہ اشا رہئ ابرو کے بھی قا ئل نہ تھے۔ہا ں وہ خو د ضرور ہر بچے کے مزاج، عا دا ت اور خو اہشات سے خوب و اقف تھے۔کسے،کب،کیا اور کیوں چا ہیے؟ وہ جا نتے تھے۔وہ ہر ایک کی ضرورت ہی نہیں چا ہت بھی جان    جا تے اور پھر اس کی تکمیل کر دینے کے بعد لفظ ’شکریہ‘ بھی غیر ضروری سمجھتے محض ایک چیز ضرور چا ہتے،لینے وا لے کے چہرے کی خو شی۔وہ خو شیا ں با نٹ کر خو ش ہو نے وا لوں میں سے تھے اور یہ معا ملہ فقط   اولا د تک محدود نہ تھا۔ 
اولا دکے قلب میں طلب ِحق کی رمق بھی انہیں دنیا کی ہرخو شی سے بڑھ کر تھی۔ان کا ذکر،ان کے مر اقبا ت،ان کی ترقی ئدرجا ت انہیں سر شا ر کر دیتی اور کسی کو غفلت میں دیکھتے تو آزردہ ہو جا تے لیکن یہ آزردگی بھی ان کی ذات تک ہی محدود رہتی۔ان کا دل،ایک ما ں کے دل سے بڑھ کر گداز تھا اور وہ با پ کی طرح اولا د کو اوج ِ کما ل پہ دیکھنے کے آرزو مند تھے۔وہ گلوں،شکوؤ ں کے قا ئل نہ تھے۔تما م تر حیا ت میں کبھی کو ئی کمزور جملہ ان کی زبا ں سے ادا نہ ہوا۔وہ کو ہ ِگراں بھی تھے اور بحرِ روا ں بھی، وہ صدف بھی تھے اور ابرِ با راں بھی،وہ شبنم ِگل بھی تھے اور تجلی ئابر بھی۔ دنیو ی حا جا ت کے لیے ملنے وا لا بھی انہیں کبھی بھلا نہ پا یا اور جس نے انہیں جا ن لیا وہ تو خدا یا ب ہوا۔اب یہ مقدر کی با ت ہے کہ کس نے کتنا جا نا!
اپنے مرید انہیں اپنی مراد کی طرح عزیز تھے۔دکھ درد سنا نے وا لا خود تو ہلکا پھلکا ہو کر چلا جا تا لیکن وہ اس با ر کو اپنے دل میں محسوس ہی نہیں اس کی شدت کو بر دا شت بھی کرتے۔ان کی آہ ِسحر گا ہی میں ہر ایک     دُو دِدل کا درد مو جو د ہو تا۔
لیکن ___!کو ن اندا زہ کر سکتا ہے کہ ایسا قلب ان دلوں کے لیے کیا درد رکھتا تھا جو اس دل کے سا تھ دھڑکتے تھے۔ایسی عطا شعا ر ہستی اپنے سینے میں ان کے لیے کیا کچھ رکھتی تھی جن سینو ں میں اس کے اپنے نا م کی شمع فروزاں تھی۔مرید تو اپنی حیثیت کے مطا بق محبت کرتا ہے لیکن شیخ کی محبت اپنے مقا م و ظرف کے مطا بق ہو تی ہے۔اور پھر کو ن یہ سمجھا سکتاہے کہ شیخ کے قلب میں انوارات کا سیل ِرواں ان قلوب کی جا نب کس طرح امڈتا ہے جس قلب کی طلب ہی وہ فیض بے کراں ہو۔ کسی نے کہا تھا: 
جسے میں سنا تا تھا دردِ دل    وہ جو پو چھتا تھا غم ِ دروں 
وہ  گدا نو از  بچھڑ  گیا    وہ  عطاشعا ر  چلا  گیا 
مگر نہیں!  وہ بچھڑے نہیں ہیں۔نہ وہ گئے ہیں۔وہ ہم سب کا اپنے اللہ کریم سے ایسا تعلق جو ڑ گئے ہیں جس نے خو د انہیں بھی بچھڑنے نہیں دیا۔ انہیں بھی جا نے نہیں دیا۔وہ خود فرما گئے ہیں:
            ”دلوں کے با سی کہیں جا یا نہیں کرتے۔“
ہاں جا تے جا تے جہاں مجھے اپنے فیضان ِقلب کا امین بناگئے ہیں وہاں اپنے مریدوں کو بھی میرے لیے مراد کر گئے ہیں جہاں مجھ خطا  کا ر کو برکا تِ رسا لت کے تسلسل کاحصہ بنا گئے ہیں وہاں آپ سب کا درد بھی عطا کر گئے ہیں۔آپ سب میر ے پا س ان کی وہ امانت ہو جو مجھے اپنی حفا ظت کے لیے ہر لمحہ چو کنا اور لرزہ براندام رکھتی ہے۔آپ سب میری دعا ؤں کا حصہ ہی نہیں بنے دل کے مکیں اور گو یا وجود کا حصہ ہو گئے ہو۔میرے پا س یہی ان کی سب سے بڑ ی ورا ثت ہے!
Hazrat Jee Rehmat Ullah Alaih - 1
Hazrat Jee Rehmat Ullah Alaih - 2

صبر اور شکر

Watch Sabar Aur Shukr YouTube Video

صاحب ایمان پر یہ اللہ کا کرم ہوتا ہے کہ وہ اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کردیتا ہے اور نتیجہ جو بھی ہو اس پر راضی رہتا ہے۔


دین کا ظاہری پہلو ہو یا باطنی ان میں سے کوئی بھی ذریعہ معاش نہیں ہے بلکہ دین اسلام ذریعہ معاش کی حقیقت سے آگاہ فرماتا ہے۔اللہ کریم کی ذات رازق ہے اور ہر ایک کا رزق اس کی پیدائش سے پہلے تقسیم فرما دیا ہے۔ہمیں صرف اسباب اختیار کرنے کا حکم ہے اور نتیجہ اللہ کریم کے دستِ قدرت میں ہے۔مخلوق حاکم نہیں ہوتی بلکہ خالق کی ماتحت ہوتی ہے حکم صرف اللہ کریم کا چلے گا جو ساری مخلوق کا مالک ہے۔اگر ہمیں سجدہ کی توفیق نصیب ہوتی ہے تو یہ ہماری خوش بختی ہے اس پر تکبرکرنے کی بجائے مزید شکر ادا کرنے کی ضرورت ہے کہ اللہ کریم نے توفیق عطا فرمائی۔
  امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب
 انہوں نے کہا کہ جس نے انکار کیا اور شکر ادا نہیں کیا اس نے خود پر ہی ظلم کیا۔صاحب ایمان پر اللہ کا بڑا کرم ہے کہ بندہ اپنا معاملہ اللہ کریم کے سپرد کر دیتا ہے۔ہو گا وہی جو میرا اللہ چاہے گا بندے کو چاہیے کہ صبر کے وقت صبر کرے اور شکر کے وقت شکر ادا کرتا رہے۔قرآن کریم میں ارشاد ہے جس کا مفہوم ہے کہ عاجزی اور بخشش کو اپنے اوپر لازم کر لو تو تمہیں اور زیادہ ملے گا۔یعنی دنیا و آخرت میں فراخی ہوگی سہولت ہو گی۔آج بھی جو فرد یا قوم اس اصول کو اپنا ئے گی آج بھی اس کا نتیجہ وہی ہو گا جو چودہ سو سال پہلے ارشاد فرمایا جا چکا۔اپنے آپ کو نیکی کی طرف لے آؤ تو آج بھی کامیابی تمہاری ہو گی۔ اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں 
  آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا فرمائی۔
Sahib imaan par yeh Allah ka karam hota hai ke woh apna maamla Allah ke supurd kar daita hai aur nateeja jo bhi ho is par raazi rehta hai . - 1

شکران نعمت

Watch Shukran-e-Naimat YouTube Video

بندہ مومن کے لیے اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی بات ہی حتمی بات ہے


کسی نعمت کا نصیب ہونا اور اس کا شکر ادا نہ کرنا سزا تک لے جاتا ہے یہاں تک کہ وہ نعمت بھی سلب کی جا سکتی ہے۔ نا شکری دنیا میں مصائب میں مبتلا کر دیتی ہے۔اور نعمت کا شکر ادا کرنا بدگمانی سے بچاتا ہے اور اللہ کریم کے مزید انعامات کا سبب بنتا ہے۔دنیا و آخرت کی کامیابی اسی میں ہے کہ ہر حال میں اللہ کریم کا شکر ادا کیا جائے۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سر براہ تنظیم الاخوان پاکستان کا جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب۔
  انہوں نے کہا کہ ہمیشہ کی کامیابی دین اسلام میں ہے،اتباع محمد الرسول اللہ ﷺ میں ہے،بندگی میں ہے۔یہ حیثیتیں یہی رہ جائیں گی جن پر ہم بحث کر رہے ہوتے ہیں۔یہ ثانوی درجہ پر چلی جائیں گی۔اجتماعی توبہ کرنے سے قومیں اُٹھ کھڑی ہوتی ہیں تقدیر معلق بدل دی جاتی ہے عذاب ٹال دئیے جاتے ہیں۔جہاں اختیار ہوتا ہے وہاں صبر اختیار نہیں کیا جاتا جو اساتذہ ہیں ان کے لیے صبر بہت ضروری ہے کیونکہ اللہ کریم نے استاد کا درجہ عطا فرمایا پھر اپنے مقصد کو دیکھیں اپنے کردار کو دیکھیں کہ مجھ سے ایک طبقہ مستفید ہو رہا ہے کہیں میرے کردار میں کوئی کمی نہ ہو اگر سخت مزاجی صرف استاد اور شاگرد کے رشتہ میں ہی ہے اور باقی زندگی کے کسی شعبہ میں نہیں تو یہ درست نہیں ہے۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔
  آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا فرمائی۔
Bandah momin ke liye Allah aur Allah ke rasool SAW ki baat hi hatmi baat hai - 1

تصوف اور ذکر الہی

Watch Tasawwuf aur Zikr Ilahi YouTube Video