Featured Events


کیا عورت کام کے لیے گھر سے باہر جا سکتی ہے

Watch Kia Aurat kam k lie ghar se bahir ja sakti hai YouTube Video

رمضان المبارک کی برکات اور اس میں کیا گیا مجاہدہ بندہ مومن کو تقوی کی دولت سے بہرہ مند فرماتا ہے


 رمضان المبارک کی برکات اور اس میں کیا گیا مجاہدہ بندہ مومن کو تقوی کی دولت سے بہرہ مند فرماتا ہے اور آخری عشرہ میں اللہ کریم اپنے اس بندے کو دوزخ سے رہائی کا پروانہ عطا فرماتے ہیں اب ہم پر منحصر ہے کہ آنے والے رمضان تک اپنی اس کیفیت کو برقرار رکھیں کہ اپنے ہر عمل اور اُٹھنے والے ہر قدم کو دیکھے کہ وہ سنت خیر الانام سے باہر تو نہیں ہے۔حضرت امیر عبدالقدیر اعوان کا ہزاروں معتکفین کے ساتھ افطاری کے دارالعرفان منارہ میں خطاب۔
  انہوں نے مزید کہا کہ معتکف کے لیے ضروری ہے کہ اس کے مکمل آداب اور شرائط کا خیال رکھا جائے اعتکاف میں بندہ مومن سب سے کٹ کر اپنے آ پ کو مسجد کی حدود میں پابند کر لیتا ہے اور باقی تمام امور ثانوی حیثیت میں چلے جاتے ہیں اور بندہ مومن اللہ کریم سے اپنے بخشش کا طلب گار ہوتا ہے اور زندگی کے معاملات میں بھی وہ دل کی گہرائی سے اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ میری کوئی حیثیت نہیں ہے میرا ہونا میرے بس میں نہیں ہے تو نظام ہستی میں میں کیا کر سکتا ہوں۔
  یاد رہے کہ اس دس روزہ اعتکاف میں کئی افراد نے یہاں پر ہشت روزہ،سہہ ہفتہ اور پنج ہفتہ تربیتی کورسز مکمل کیے جن کی اسناد بدست حضرت امیر عبدالقدیر اعوان مد ظلہ العالی امتحانات پاس کرنے والوں کو دی گئیں۔اور یہاں ہزاروں افراد کی سحری و افطاری کا وسیع انتظام مرکز کی زیر نگرانی باقاعدہ نظم وضبط کے ساتھ ہوتی ہے اور الحمدللہ 29 شب کو حفاظ کرام نے تکمیل قرآن کیا اور اس کے بعد ملک اور قوم کی سلامتی کے لیے خصوصی دعا کی
Ramadaan ul mubarak ki Barkaat aur is mein kya gaya Mujahida bandah momin ko taqwa ki doulat se behra mand farmata hai - 1

تنسیخ آیات کی حکمت

Watch Tanseekh Ayat ki hikmat YouTube Video

العلم


 یَرفَعِ اللَّہُ الَّذینَ آمَنوا مِنکُم وَالَّذینَ أوتُوا العِلمَ دَرَجاتٍ (المجادلہ:۱۱) 
’’اللہ تم میں ایمان والوں اورجن لوگوںکو علم عطا ہواہَے،کے درجات بلند فرمائیںگے۔‘‘ 
لکھنا،پڑھنا اورجانناعلم کا عمومی مفہوم سمجھا جاتا ہَے۔ حروف،کہ جن کی آوازیں متعین کی جاتی ہیں،سے بننے والے الفاظ کااصل مقصد دراصل وہ پیغام ہوتاہَے جو ان کے ذریعے دیا جاتاہَے۔انسان فطری استعداد کو بروئے کار لا کر  پڑھتا اور سمجھتا ہَے یوں قوموں کے تجربات او ر  ان کے جمع شدہ علوم حاصل کئے اور اگلی نسلوں تک منتقل کئے جاتے ہیں۔
 لیکن قارئینِ کرام! جب تک پڑھے یا سنے جانے والے جملوں کی کیفیات پوری طرح دل میں نہ اتر جائیں وہ ’علم‘  نہیں کہلاتا یہیں سے ’علم‘ ا ور ’خبر‘کی تفریق ہوتی ہَے۔          
حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہَے کہ عِلم کے دو حصے ہیں ایک وہ جو دل میں اترتا ہَے اور دوسرا وہ جو زبان تک رہتا ہَے۔ دل میں اترنے والا عِلم نافع ہَے، اللہ کا انعام ہَے اور جو زبان تک رہتا ہَے وہ علم بندے پر اللہ کی حجت ہَے۔ روزِ قیامت وہ بہانہ نہیں کر پائے گا یہی علم اس پر گواہی بن جائے گا کہ تجھے تو علم تھا۔
متقدمین کے مطابق ’العلم‘یعنی پورا علم یہ ہَے کہ علمِ دین اور علمِ دنیا، دونوں ہوں۔ دین کا شعور بھی ہو اور دنیوی علم پہ دسترس بھی ہو۔ دنیوی علوم جنہیں ظاہری علوم بھی کہا جاتا ہَے دماغ کی سلامتی کے محتاج ہیں اور محض بدن کے کام آنے والے علوم ہیں۔ یہاں بھی محض ڈگریوں کا بوجھ علم نہیں کہلائے گا بلکہ علمائے حق کے مطابق اگر دنیوی علوم کی کیفیات بھی دل میں اتر جائیں اور ہر نئی تحقیق، ہر رمزِ کائنات، ہرسلجھتی گتھی، ہرشَے کی اصل عظمتِ باری کا ادراک بخش دے تو حقیقت میں وہ ’علم‘ہَے۔ اسی طرح مال و دولت کے حصول کا طریقہ جاننا اشیاء کا عِلم ہَے اور اس کے انجام سے باخبر ہونا حقیقتِ اشیاء کا علم ہَے۔ جو حقیقتِ اشیاء سے واقف ہَے، عنداللہ وہی عالم ہَے۔
عِلم کی دوسری اور ترتیب میں پہلی قسم، علمِ دین ہَے جوعلمائے حق کے مطابق سراسر معرفتِ الٰہی ہَے۔ انسان پر اللہ کریم کا سب سے بڑا احسان علم القرآن ہَے۔  
خالقِ کائنات سے تعارف،عظمتِ باری کا ادراک، مقامِ رسالت کی پہچان، حقیقتِ حیات سے آشنائی، مقصدِ حیات سے شناسائی، اشیائے دنیا کی بیثباتی، دائمی و ابدی زندگی کا شعور، احتسابِ اعمال کی فکر،اعمالِ بد کا انجام اور اعمالِ صالح پہ نوید کے ساتھ ساتھ ہر خطۂ زمین، ہر شعبۂ زندگی ہر مکتبۂ فکر اورہر طبقۂ حیات سے تعلق رکھنے والوں کے لئے اکمل و جامع ضابطہ حیات ولائحہ عمل۔  
لیکن قارئینِ کرام! صاحبِ عِلم وہی ہوگا جو ان جملوں، ان باتوں کی کیفیات کو پائے گا۔ جِس کے لیے سلامتی ٔ قلب درکار ہَے ورنہ مستشرقین کی مثال ہمارے سامنے ہَے۔ قرآنِ پاک میں ارشاد ہَے:  وَتِلکَ الأَمثالُ نَضرِبُہا لِلنّاسِ وَما یَعقِلُہا إِلَّا العالِمُونَ (العنکبوت:43)
’’اورہم ان مثالوں کو لوگوں (کو سمجھانے) کے لئے بیان فرماتے ہیں اوربس علم والے لوگ ہی سمجھتے ہیں۔‘‘
جانے گا وہ، سمجھ وہ پائے گا جس کے پاس دلِ زندہ ہوگا اور جاننے کے اعلیٰ ترین درجے کووہ پائے گا جوقلبِ روشن رکھتا ہوگا اور وہی حقیقت میں ’عالم‘ ہوگا۔
 دلچسپ بات یہ ہَے کہ علومِ باطنی ایسی نعمت ہَے کہ جب یہ عطا ہوتی ہَے تو علومِ ظاہری بھی کھنچے چلے آتے ہیں لیکن علمِ ظاہر میں یہ طاقت نہیں کہ علمِ باطن کو کھینچ لائے۔ذرائع علم کئی ہیں۔ کچھ فطری طور پہ حاصل ہوتے ہیں جو علومِ فطری کہلاتے ہیں۔ کچھ باقاعدہ سیکھناپڑتے ہیں جنہیں اکتسابی علوم کہا جاتا ہَے جِن کا عمومی ذریعہ پڑھنا اور لکھنا ہَے۔ سورۃالعلق میں ارشادِ ربانی ہَے:  الَّذی عَلَّمَ بِالقَلَمِ (العلق: 4) 
’’جِس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا‘‘۔ 
اکتسابی علوم وقت، استاد اور استعداد پہ انحصار کرتے ہیں جبکہ حصولِ علم کا ایک اور بہت بڑا ذریعہ علمِ لَدُنّی ہَے۔ یہ علم اللہ کریم کی طرف سے آتا ہَے۔ یہ کسی دنیوی استاد، وقت اورعرصے کا محتاج نہیں۔ بس اللہ کریم نے عطا فرما دیا اور لینے والے کو ملتا چلا گیا۔ اس ذریعہ میں وہ ذاتِ علیم، خوش بخت قلوب میں علوم کے خزانے انڈیل دیتی ہَے اور ایسا ایک لمحہ میں بھی ہو سکتا ہَے۔ سورۃ الکھف کی آیہ مبارکہ 65 میں ہَے: فَوَجَدا عَبدًا مِن عِبادِنا....(الکھف:65) 
’’تو(وہاں) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا جِس کو ہم نے اپنی خاص رحمت دی تھی اور ہم نے اس کو اپنے پاس سے علم بخشا تھا۔‘‘
علمِ لدُنّی سے حاصل ہونے والے خزانے علمِ اکتسابی سے بہت بالاتر ہوتے ہیں۔ اکتسابی علم کا حامل ان رازوں کے بھیدوں کو پا ہی نہیں سکتا جو علمِ لدُنّی سے فیض یاب ہونے والے کو حاصل ہوتے ہیں۔ یہ فہم و ادراک کے وہ پٹ وا کرتا، سوچ کو ایسی گہرائی عطا کرتا اور عقل کوعقلِ سلیم تک یوں لے جاتا ہَے کہ کسی دوسرے کے لئے پانا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہَے۔  
الحمدللہ امتِ محمدیہ ﷺ میں علمِ لدنی کے حامل لوگ زیادہ ہیں کیونکہ اس امت پر اللہ کی رحمتیں بھی زیادہ ہیں۔
 عِلم کی اہمیت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہَے کہ پہلی وحی ہی میں بات حصولِ علم کی ہوئی ’اقرا‘،انتقالِ علم کی ہوئی: الَّذی عَلَّمَ بِالقَلَمِ (العلق: 4) گویا تعلیم و تعلم کی ہوئی۔
عِلم صفتِ باری تعالیٰ ہَے وہ علیم ہَے وہ صاحبِ علم لوگوں کوافضلیت بخشتا ہَے۔
 ہَل یَستَوِی الَّذینَ یَعلَمونَ وَالَّذینَ لا یَعلَمونَ (الز مر:9)
’’بھلا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو نہیں رکھتے دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟‘‘
حصولِ علم اسے اس قدر محبوب ہَے کہ اس کے لیے اس نے خود دعا تعلیم فرمائی:  وَقُل رَبِّ زِدنی عِلمًا (طہ:114)
’’اے میرے پروردگار!میرا علم بڑھا دیجئے۔‘‘ 
حدیثِ پاک ہَے: ’’میں طالب علم کو مرحبا (خوش آمدید) کہتا ہوں۔ فرشتے طالبِ علم کو اپنے پروں سے سایہ کر دیتے ہیں۔ پھر ایک دوسرے کے او پر پر پھیلائے رہتے ہیں، تا آں کہ وہ آسمان دنیا تک چلے آتے ہیں اپنی محبت کے باعث، ان کے لیے جو علم حاصل کرتے ہیں۔‘‘(المعجم الکبیر للطبرانی)
نبی اکرمﷺ کا فرمان ہے:  ’’الکلمۃ الحکمۃ ضالۃ المؤمن، حیثما وجدہا،فہو احق بہا.‘‘(سنن ابن ماجہ)
’’حکمت و دانائی کی بات مومن کا گمشدہ سرمایہ ہے، جہاں بھی اس کو پائے وہی اس کا سب سے زیادہ حقدار ہَے۔ـ‘‘
اللہ کریم ہمیں علم حقیقی کو پانے کی سعی کرنے اور اس سے فیض یاب ہونے کی توفیق عطا فرمائیں۔
رَبِّ اشرَح لی صَدری (طہ:25)
ــ’’اے میرے پرورد گار! میرا سینہ کھول دیجئے۔‘‘
Al-Ilm - 1
Al-Ilm - 2

نور ایمان بنیاد ہے

Watch Noor-e-Eman Bunyad hai YouTube Video

جمعتہ الوداع

Watch Jumma tul Wida YouTube Video

افطاری دارالعرفان منارہ


بارگاہ رسالت ﷺ کی بے ادبی سے بندہ لمحوں میں اپنے اعمال ضائع کر بیٹھتا ہے


اللہ کریم کے حبیب ﷺ کے معجزات میں سے ایک معجزہ یہ بھی تھا کہ آپ کی آواز کتنا بڑا مجمع کیوں نہ ہو آپ ﷺ کی آواز سب کو برابر سنائی دیتی تھی۔کتنے ہی لوگ کیوں نہ کھڑے ہوتے آپ ﷺ کی شخصیت نمایاں نظر آتی۔یہود نے آپ ﷺ کو مخاطب کرنے کے لیے" راعنا"کے لفظ کو کھینچ کر بولا تو اللہ کریم نے اس لفظ کو ہی عربی لغت سے نکال دیا جس سے آپ ﷺ کی شان میں گستاخی کا شائبہ ہو سکتا تھا اور وہاں لفظ قولو انظرنا کا لفظ دیا۔بارگاہ رسالت ﷺ کی بے ادبی سے بندہ لمحوں میں اپنے اعمال ضائع کر بیٹھتا ہے۔
 امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان کا جمعتہ الوداع کے موقع پر خطاب
  انہوں نے کہا کہ اللہ کریم نے ایسے لفظ کو لغت سے ہی ختم کر دیا جو گستاخی کا سبب بن سکتا تھا اور مزید یہ فرمایا کہ غور سے سنو یہ ضرورت کیوں پیش آئی کہ آپ کو دوبارہ عرض کرنا پڑا۔ہم نیکی او ربد ی کو بخوبی جانتے ہیں۔اُس کے باوجود ہم نیکی چھوڑتے ہیں اور بدی اختیار کرتے ہیں۔ایسے ہی سود کو حرام سمجھتے ہیں لیکن کتنے ایسے لوگ ہیں جو سود کا لین دین نہیں کر رہے یہ کیا ہم اُس حکم کو مان رہے ہیں جو واسمعو کے معنوں میں آتا ہے۔اور اس طرح کی گستاخی بندہ کو کفر تک لے جاتی ہے۔قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ ان کے لیے عذاب عظیم ہے۔
 انہوں نے مزید کہا کہ ہم قرآن کریم کے احکامات  پر کتنا عمل کر رہے ہیں رمضان المبارک کی مبارک ساعتوں میں بحیثیت قوم ہم نے جو رویہ مسجد نبوی میں اختیار کیا اس سے ہماری اُمتی کی نسبت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔رمضان المبارک کی ان ساعتوں کا بھی ہم پر کوئی اثر نہیں پڑ رہا۔معاشرے میں اگر معاملات کو دیکھیں،لین دین کو دیکھیں،کاروبار کو دیکھیں تو کوئی فرق محسوس نہیں ہوگا کہ رمضان المبارک ہے یا غیر رمضان ہے۔ وہی ہمارے کردار ہیں جو غیر رمضان میں ہوتے ہیں بلکہ  دیکھا یہ گیا ہے کہ اس سے بھی گئے گزرے ہو جاتے ہیں ہر چیز ہم رمضان المبارک میں مہنگی کر کے بیچنا شروع کر دیتے ہیں۔
شب قد ر کی نسبت سے اللہ کریم کا اپنے بندوں پر خاص کریم کہ آخری عشرہ میں پانچ طاق راتوں میں لیلتہ القدر کی تلاش کر فرمایا تا کہ ہمیں اور مزید موقع مل سکے اگر صرف ایک رات کا ذکر ہوتا تو جس کی رہ جاتی وہ کیا کرتا اس موقع سے اللہ کریم کی خاص شفقت بھی محسوس ہوتی ہے اپنے بندوں پر اب ہم پر ہیں کہ ہم نے لیلتہ القدر کو کتنا پایا اللہ کریم اس رمضان المبارک کی برکات ہمیں اگلے رمضان المبارک تک لے جاتے کی توفیق عطا فرمائیں اور روزے تو گزر گئے رمضان کو جانے نہ دو یہ حضور حق کی کیفیت کو اگلے رمضان المبارک تک اپنے ساتھ رکھو۔روزے گزر گئے رمضان باقی ہے۔
  آخر میں انہوں نے ملکی سلامتی اور بقا کی اجتماعی دعا بھی فرمائی۔
bargaah Risalat SAW ki be adbi se bandah lamhoon mein –apne aamaal zaya kar baithta hai - 1

جادو سے حفاظت

Watch Jadu se hifazat YouTube Video

اختلافات کا حل


اللہ جل شانہ نے قرآنِ پاک کی سورۃ الانفال کی آیہ مبارکہ 60میں ہمارے لئے اصولِ زندگی ارشاد فرمائے ہیں۔
وَاَعِدُّوْا لَـهُـمْ مَّا اسْتَطَعْتُـمْ مِّنْ قُوَّةٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْـخَيْلِ تُرْهِبُوْنَ بِهٖ عَدُوَّ اللهِ وَعَدُوَّكُمْ وَاٰخَرِيْنَ مِنْ دُوْنِـهِـمْج لَا تَعْلَمُوْنَـهُـمْ ۚ  اللهُ يَعْلَمُهُـمْ ط وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَىْءٍ فِىْ سَبِيْلِ اللّٰهِ يُوَفَّ اِلَيْكُمْ وَاَنْتُـمْ لَا تُظْلَمُوْنَ o
اورجہاں تک تم سے ہو سکے ان کے لئے (فوجی) قوت اور پلے ہوئے گھوڑوں (سامانِ جنگ) سے تیار رہو کہ جو اللہ کے دشمن ہیں اور تمہارے دشمن ہیں اس سے ان پر رعب جمائے رکھو ان کے علاوہ دوسروں پر بھی جن کو تم نہیں جانتے اللہ ان کو جانتے اور تم اللہ کی راہ میں جو کچھ بھی خرچ کرو گے وہ تم پورا پورا دیا جائے گااور تمہارے ساتھ کو ئ زیادتی نہ ہو گی۔ 
ہمارے مسائل بے شمار ہیں جن میں سے بہت سے مسائل کی بنیاد ہمارا اختلافِ رائے اور اس کا طریقۂ اظہار ہے۔ایسا خوبصورت ملک ِ خداداد جس میں ہر قسم کے موسم، ہر فصل، ہر خطۂ زمین، ہر قسم کے معدنیات اور پھر ذہانت کا بے بہا خزانہ بھی موجود ہے فقط راہ کے تعین کا فقدان روبہ ترقی ہونے میں حائل ہے۔ 
اللہ کریم نے بنی نوعِ انسان کو ایک وقار اور مقام عطا فرما رکھا ہے چہ جائیکہ ایک انسان نورِ ایمان سے بھی سرفراز ہو۔ میری گزارش ہے کہ آراء کے اظہار کو حدود و قیود میں رکھا جائے اور باہمی اختلافات کو بھُلا کر بحیثیت قوم کے سوچا جائے کیونکہ دینِ اسلام بھی ہمیں یہی درس دیتا ہے۔ مسلمان کی سوچ کبھی بھی فقط اپنی ذات کے لئے نہیں ہوتی وہ ہمیشہ اجتماعی بنیاد پر سوچتا ہے۔ وطنِ عزیز کے ہر ادارے کو دیکھ لیں خواہ وہ عدلیہ ہو، ملٹری اسٹیبلشمنٹ ہو، پارلیمنٹ ہو، وہاں کون کام کر رہا ہے؟ کون ہے وہاں؟ ہم ہیں۔شہداء اور غازی کون ہیں؟ ہمارے بیٹے ہیں، ہمارے بھائی ہیں جو وطنِ عزیز کی ناموس پر جانیں لٹا رہے ہیں۔ کون ہیں؟ ہم ہیں۔ ہم میں سے ہی کسی کی بہو کا سہاگ ہے، کسی بہن کا بھائی ہے، کسی ماں کا بیٹا ہے۔ بحیثیت عوام بھی، ہم ہیں۔ بحیثیت ادارے بھی ہم ہی ہیں۔ ضرورت محض اپنی کوتاہیوں پہ نظر رکھنے کی ہے۔ سورۃ النساکی آیہ مبارکہ 59 میں اللہ کریم نے واضح ارشاد فرمایا ہے
يٰآ يُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِى الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ  فَاِنْ تَنَازَعْتُـمْ فِىْ شَىْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُـمْ تُؤْمِنُـوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِط  ذٰلِكَ خَيْـرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًاo
اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور پیغمبر ؐ کی اطاعت کرو اورا ن کی جو تم میں سے اہل حکومت ہیں۔پھر اگر کسی معاملہ میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اسے اللہ اور اس کے پیغمبر کی طرف پھیر دو اگر تم اللہ پر اور روزِ آخرت پر یقین رکھتے ہو، یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا انجام اچھاہے۔ 
ایک طرف اگرحکمران کی اطاعت ضروری ہے تو اس سے اختلاف کا حق بھی حاصل ہے۔ اگر محسوس ہو کہ حکمران غلطی پہ ہے تو اس سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے لیکن اگر ایسا ہو تو یہاں بھی اللہ کی رضا مقدم ہو۔ اس ختلاف کا حل بھی اللہ اور اس کے حبیب ﷺ کے حکم کے مطابق تلاش کرنا چاہیے۔
معزز قارئین کرام! تضادات اس وقت بڑھتے ہیں جب ہم اپنی آراء کا نفاذ چاہتے ہیں۔ مَیں دعا گو ہوں کہ اللہ کریم ہمیں بحیثیت مسلمان اس بنیاد پر جمع ہونے کی توفیق عطا فرمائے کہ یہ وطنِ عزیز ہمارا ہے جس کے لئے ہمارے اجداد نے ہر طرح کی قربانیاں دی ہیں۔ 1947ء میں یہ ملک وجود میں آیا ہے جس کے لیے 1857ء سے لوگ قربانیاں دیتے آ رہے تھے۔ اس وطنِ عزیز کے نام پر کتنے لوگ جان جانِ آفرین کے سپرد کر کے دفن ہوئے، یہ شمار فقط وہ جانتا ہے جو اس کا صلہ دینے والا ہے پھر بقائے وطن کے لئے 1965ء کی لڑائی پر غور کیجیے۔ وہ ہمارے ہی بیٹے تھے جو اپنے سینوں پہ بم باندھ کر دشمن کے ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے تھے کہ ان ٹینکوں کو روکنے کا کوئی اور طریقہ نہ تھا۔ آپ کسی بھی شہید جسد ِ خاکی کتنے ہی عرصے بعد دیکھ لیں، سلامت ہو گا۔ یہ ان پہ انعامِ باری ہے۔
یہ وطن، انعامِ باری تعالی ہے جس کے شکر ادا کرنے کی ایک ہی صورت ہے، اس کی نسلوں کے کردار کی تعمیر و تشکیل۔ ہمیں اپنے بچوں کو دین و دنیا، دونوں کے علوم سے بہرہ مند کرنا ہے۔ قوم کے بکھرے ہوئے شیرازے کو سمیٹ کر صراطِ مستقیم پہ چلانا ہے۔ اتباعِ رسالت ﷺ پہ گامزن کرنا ہے۔ اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی طرف پلٹنا ہے۔
معزز قارئین کرام! ہر شعبہ زندگی کو درست کرنے کے لئے نفاذ قانون کا اطلاق لازم ہے۔ جب کوئی معاملہ پیش آئے، قانون وہ بنیادی شئے جو چیزوں میں استحکام لاتا ہے۔ ہمارے پاس 1973ئکا آئین ہے جس پہ نہ صرف قومی سطح پہ بلکہ مذہبی جماعتوں کا کثیر اتفاق ہے۔ اگر اسی آئین کو کلی طور پر نافذ کر دیا جائے تو ہمارے 80%سے زائد مسائل حل ہو جائیں گے۔ ہم اپنی ضرورت کے تحت اس میں ترمیم کرتے رہتے ہیں۔ مسائل اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب ذاتی ضروریات کو قومی ضروریات پہ فوقیت دی جائے۔ ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہے اس کے باوجود غریب آدمی دو وقت کی روٹی کھانے سے قاصر ہے۔ سستا بیج، سستی کھاد ہی نہیں ایک شفاف نظام کی فراہمی بھی ضروری ہے۔ نظام اور اس کا عادلانہ نفاذ زرعی پیداوار کو فروغ بھی دے گا، اشیائے خورد و نوش کی سمکلنگ کا سد ِ باب کی کرے گا۔ شدتِ مزاج کبھی، کسی مسئلے کا حل نہیں رہابلکہ اس کا نتیجہ اکثر ندامت کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ ملک ہمارا ہے، قوم ہماری ہے، ادارے ہمارے ہیں۔ ضرورت ہے تو  ہم میں سے ہر ایک کو ادائیگی فرض کے احساس کی۔ اللہ تبارک تعالیٰ اس ملک کی حفاظت فرمائے اور ہمیں اپنے حصے کا کردار کرنے کی توفیق ارزاں عطا فرمائے۔اللہ کریم ہمیں باہمی اتفاق و اتحاد نصیب فرمائے۔ یہ خطۂ ارضِ وطن، مدینہ منورہ کے بعد، دوسری ریاست ہے جو اسلام کے نام پہ معرضِ وجود میں آئ۔ اسے ہمیشہ قائم و دائم رہنا ہے۔ انشآئاللہ۔ خو ش بخت وہ ہو گا جو اپنے خون سے اس مٹی کو سینچے گا۔