فَاَ قِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا۔۔۔۔۔ [الروم 30:30] ’’تو تم ایک طرف کے (یکسو)ہو کر دین پر سیدھارخ کیے چلے جاؤ۔اللہ کی فطرت کو جس پر اس نے لو گوں کو پیدا فرمایا ہے (اختیار کیے رہو)۔‘‘ انسان اشرف المخلو قات ہے اور رب العالمین کی ذات خالق۔تخلیق اس صورت میں احسن اور کار آمد ہوتی ہے جب خالق کے بتا ئے ہو ئے انداز و ترتیب سے استعمال کی جا ئے۔اللہ کریم نے اپنی اس سب سے اشرف مخلوق کے لیے جو طرز ِحیات چنا وہ اس کی فطرت کے عین مطابق ہے۔دنیا میں انسان کے اپنے بنائے ہو ئے قوا نین خواہ انہیں چوٹی کے دانشوروں نے مرتب کیا ہو،اپنے اندر کو ئی نہ کو ئی سقم ضرور رکھتے ہیں۔اسی لیے ان کی تنفیذ کی عمر بھی محدود رہی ہے۔ وا حد طرزِ حیات جو ہر دور،ہر زمانہ میں یکساں طور پر قا بل عمل ہی نہیں مستحسن بھی رہا وہ محمد رسول اللہﷺ کے لا ئے ہو ئے دین حنیف کا عطاکردہ ہے۔کہیں بھی،کبھی بھی،کسی بھی پہلو سے جا ئز ہ لے کر دیکھ لیں حتمی اور مستحکم حیثیت ارشادت محمد رسول اللہﷺ کی ہو گی۔دنیا کے جس خطے میں بھی اصول حیات،ارشاداتِ نبوی سے لیے گئے وہاں مخلوق خدا بھلا ئی حا صل کر رہی ہے۔ یہ دین ِاسلام ہی ہے جو تمام فطری تقا ضوں کو پو را کرتا ہے۔شاہ ہو یا گدا،امیر ہو یا غریب،صحتمند ہو یا مریض،کمزور ہو یا طا قتور، حاکم ہو یا ماتحت ہر ایک کی ایسی حدود و قیود مقرر فرماتا ہے کہ زندگی عین حق کے مطابق بسر ہوتی ہے کہ یہی طرز ِحیات سہل بھی ہے اور باعث تسکین بھی۔ قا رئین کرام! ہم بحمد للہ مسلمان ہیں۔اسلام ہمیں ورثے میں ملا ہے۔یہ نعمت بھی بغیر کسی تگ و دو کے عطا فرما دی گئی۔اب بات اس نعمت کی قدر کی ہے۔ہمیں دین ِاسلام سے آشنا ئی تو ہو ئی لیکن ہمارا دل یقین کی کس منزل پر ہے؟اس بات کی شہا دت صرف ہمارا عمل دے سکتا ہے۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً۔۔۔[البقرۃ 2:208] کا مطلب ہی یہ ہے کہ انسان اپنی سوچ سے لے کر عمل تک دائرہ اسلام میں داخل ہوجائے۔ بات اٰمَنُوْا سے شروع ہو کر عَمِلُوا الصّٰلِحٰت تک آئے تو ہُوَ الْفَوْزُ الْمُبِیْنُ تک جا تی ہے۔انفرادی سوچ و عمل کی تبدیلی ہی معا شرتی تبدیلی میں ڈھلتی ہے۔قو میں افراد سے بنتی ہیں۔اگر ہر شخص اٰمَنُوْا سے عَمِلُوا الصّٰلِحٰت تک کے سفر پہ گامزن ہو جائے تو بلا شبہ قوم فلاح کی منزل کو پا لیتی ہے۔ وطن،خطہ ارض کا نام ہے اس کی تعمیر و ترقی اس میں بسنے والے افراد کے ہا تھوں ہو تی ہے۔یہ مارچ کا مہینہ ہے۔قریبا ًاسّی (۸۰)سال پہلے اس ماہ میں ایک قرارداد پیش کی گئی تھی جو قراردادِ لاہور سے قرار دادِ پاکستان کے نام سے موسو م ہو ئی۔یہ اس خطۂ زمین کے لیے تھی جس کے نام کا مطلب لا الہ الا اللہ سمجھا گیا جس کے حصول کے لیے لاکھوں جانیں قربا ن ہو ئیں،ہزاروں عصمتیں تا رتار ہو ئیں،سینکڑوں وجود معذور ہو ئے۔نجانے کتنے گھر لٹے،کتنے جلے اور کتنے بکھر کر رہ گئے۔ہمیں تو ان جانثا روں کے نام بھی معلوم نہ ہو سکے کہ وہ تعداد میں بھی ان گنت و بے شمار تھے اور تشہیرکی خواہش سے بھی بہت با لا تر۔ یہ انہیںشہیدوں کا احسان ہے کہ آج ہم آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ہمیں تو شا ید ان کے لیے کبھی فاتحہ پڑھنا بھی یاد نہیں آیا لیکن روزِ محشر وہ یہ گلہ تو شاید ہم سے نہ کریں ہاں اس بات پہ ہمارا گریبان ضرور پکڑیں گے کہ ان کے لہو اور کٹے ہو ئے وجودوں پہ تعمیر اس قلعہ کی حفا ظت،استحکام اور ترقی سے ہم نے غفلت کیوں برتی؟ منزل بھی متعین ہے اور نشانِ منزل بھی موجود۔راستہ بھی وا ضح ہے اور را ہبر بھی را ہبر کامل ﷺ کہ ہا تھوں میں الکتاب بھی ہے اور سنت خیر الانامﷺ بھی۔ ضرورت ہے تو فقط ادراک اور تحریک عمل کی۔